کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 17
کہا کہ میں نے زاہر بن احمد السرخسی سے سنا وہ کہتے ہیں: ’’جب میرے گھر میں بغداد کے اندر ابو الحسن الاشعری کی موت کا وقت قریب ہو گیا، تب انہوں نے مجھے بلایا تو میں ان کے پاس آیا، انہوں نے کہا: ’’مجھ پر گواہ ہو جا، میں اہل قبلہ میں سے کسی ایک کی بھی تکفیر نہیں کرتا۔ اس لیے کہ تمام ایک معبود کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور یہ سب محض عبارات کا اختلاف ہے۔‘‘
یہ ابو الحسن الاشعری وہ ہیں جو اشاعرہ کے امام ہیں۔ یہ پہلے معتزلی تھے، انہوں نے معتزلہ کی حمایت میں کتب لکھی تھیں اور پھر خود ہی ان کو باطل قرار دے دیا اور علمائے دیوبند اور علمائے بریلوی انہیں عقیدے میں اپنا امام مانتے ہیں۔انہوں نے آخری زندگی میں کلمہ حق بلند کیا اور اہل السنۃ اہل الحدیث کا منہج اختیار کیا اور اہل القبلہ کی تکفیر سے رجوع کر لیا۔ لیکن ان کے ماننے والوں نے غلط روش اپنائی اور آج مسلمانانِ عالم کی تکفیر پر کمربستہ ہیں اور محض تکفیر ہی نہیں بلکہ تقتیل و تفجیر (قتل کرنا اور دھماکے کرنا) کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں۔ ہداہم اللّٰہ تعالٰی الی صراط مستقیم.
شیخ الاسلام و المسلمین امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا آخری قول
امام ذہبی رحمہ اللہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا کلام نقل کرنے کے بعد اپنے اور اپنے شیخ محترم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’قلت و بنحو ہذا أدین، و کذا کان شیخنا ابن تیمیۃ في أواخر أیامہ یقول: أنا لا أکفر أحدا من الأمۃ، و یقول: قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یحافظ علی الوضوء إلا مؤمن فمن لازم الصلوات بوضوء فہو مسلم.‘‘ [1]
’’میں کہتا ہوں کہ میں اس طرز کو اپناتا ہوں اور اسی طرح ہمارے شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں کہتے تھے کہ میں امت میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا اور کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وضو کی حفاظت مومن کے علاوہ کوئی نہیں کرتا۔‘‘ تو جس نے وضو کے ساتھ نمازوں کو لازم کر لیا وہ مسلم ہے۔‘‘[2]
[1] ) سیر أعلام النبلائ: 15/88.
[2] ) جس حدیث کا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے: وہ سنن ابن ماجہ (277)-مسند احمد (37/60، رقم: 22378، 37/109، رقم: (22433)، شرح السنۃ (155)، مسند طیالسي (996)، تعظیم قدر الصلاۃ (168)، المستدرک للحاکم: (1/130)، البیہقي (1/82، رقم: 457)، التمہید (24/318)، ابن ابي شیبۃ (1/6،5)، المعجم الصغیر للطبراني (8، 1011)، المعجم الاوسط لہ (7015)، و مسند الشامیین (1335)، المعجم الکبیر (1444)، مسند الدارمي (656)، ابن حبان (1047) وغیرہا میں موجود ہے۔