کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 169
میں مخالفت کی بنیاد پر بلکہ تکفیر صرف اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے جو نص شرعی کے بغیر ثابت نہیں ہوتی کسی کی رائے یا قول کے ساتھ تکفیر واقع نہیں ہوتی جس کو اللہ اور اس کے رسول نے کافر قرار دیا وہ پکا کافرہے۔‘‘ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ایک سوال ’’کیا آپ اہل تاویل کی تکفیریا تفسیق کرتے ہیں؟‘‘ کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’فإن قال قائل: ہل تکفرون أہل التأویل أو تفسقونہم؟ قلنا: الحکم بالتکفیر والتفسیق لیس إلینا، بل ہو إلی اللّٰہ تعالیٰ ورسولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فہو من الأحکام الشریعۃ التي مردھا إلی الکتاب والسنۃ، فیجب التثبت فیہ غایۃ التثبت، فلا یکفر ولا یفسق إلا من دل الکتاب والسنۃ علی کفرہ أو فسقہ۔‘‘ ’’والأصل فی المسلم الظاہر العدالۃ بقاء إسلامہ وبقاء عدالتہ، حتی یتحقق زوال ذلک عنہ بمقتضی الدلیل الشرعي ، ولا یجوز التساہل في تکفیرہ أو تفسیقہ لأن في ذلک محذورین عظیمین: أحدہما: افتراء الکذب علی اللّٰہ تعالیی في الحکم وعلی المحکوم علیہ في الوصف الذي نبزہ بہ۔ الثاني: الوقوع فیما نبز بہ أخاہ إن کان سالما منہ ، ففي صحیح مسلم عن عبداللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: ’’ إذا کفر الرجل أخاہ فقد باء بہا أحدہما ‘‘ ، و في روایۃ : ’’ إن کان کما قال و إلا رجعت علیہ‘‘ ، و فیہ عن أبی ذر رضی اللّٰه عنہعن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم : ’’ ومن دعا رجلًا بالکفر ، أو قال عدو اللّٰہ ، و لیس کذلک إلا حار علیہ‘‘۔ وعلی ہذا فیجب قبل الحکم علی المسلم بکفر أو فسق أن ینظر في أمرین: أحَدہما: دلالۃ الکتاب أو السنۃ علی أن ہذا القول أو الفعل موجب للکفر أو الفسق۔ الثاني: انطباق ہذا الحکم علی القائل المعین أو الفاعل المعین ، بحیث تتم شروط التکفیر أو التفسیق في حقہ ، و تنتفي الموانع۔[الواعد المثلی فی صفات اللّٰہ و اسمائۃ الحسنی ، ص: 87، 88] ’’کسی کی تکفیر یا تفسیق ہمارا حق نہیں بلکہ وہ تو اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے پس وہ شرعی احکام میں سے ہے جس کا منبع اور ماخذ کتاب و سنت ہے، پس اس کو ہی ثابت رکھنا چاہیے لہٰذا نہ تو کسی کی تکفیر کی جائے اور نہ ہی تفسیق حتی کہ اس کے کفر اور فسق پر واضح دلیل نہ آجائے۔