کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 167
اور ایک جگہ فرمایا: ’’فلہذا کان أہل العلم والسنۃ لا یکفرون من خالفہم وإن کان ذلک المخالف یکفرہم لأن الکفر حکم شرعي فلیس للإنسان أن یعاقب بمثلہ کمن کذب علیک وزنی بأہلک لیس لک أن تکذب علیہ وتزني بأہلہ لأن الکذب والزنا حرام لحق اللّٰہ وکذلک التکفیر حق للّٰہ فلا یکفر إلا من کفرہ اللّٰہ ورسولہ۔‘‘[1] ’’اس لیے علم اورسنت والے لوگ اپنے مخالفین کی تکفیر نہیں کرتے چاہے ان کا مخالف ان کی تکفیر کرے پس تکفیر حکم شرعی ہے اور انسان کے لیے جائز نہیں کہ اس کا تعاقب بھی تکفیر سے ہی کرے جیسے کوئی تجھ پر جھوٹ باندھے اور تیری بیوی کے ساتھ زنا کرے تو لازم نہیں کہ تو بھی جھوٹ اور اس کی بیوی کے ساتھ زنا کرکے برائی کا بدلہ لے اس لیے کہ جھوٹ اور زنا حرام ہیں اللہ کے حق کی وجہ سے اور اسی طرح تکفیر اللہ کا حق ہے تو اس وقت تک کوئی آدمی کافر قرار نہیں دیا جائے جب تک اللہ اور اس کے رسول نے اس کی تکفیر نہ کی ہو۔‘‘ اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’فإن الإیجاب والتحریم والثواب والعقاب والتکفیر والتفسیق ہو إلی اللّٰہ ورسولہ؛ لیس لأحد في ہذاحکم وإنما علی الناس إیجاب ما أوجبہ اللّٰہ ورسولہ، وتحریم ما حرمہ اللّٰہ ورسولہ۔‘‘[2] ’’یقینا کسی چیز کو واجب و حرام ٹھہرانا اور ثواب و عقاب اور تکفیر و تفسیق اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اس میں کسی بھی فرد کا کوئی حکم نہیں لوگوں پر صرف وہ چیز واجب ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے واجب کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا۔‘‘ ایک اور مقام پر راقم ہیں: ’’فإن الکفر والفسق أحکام شرعیۃ لیس ذلک من الأحکام التي یستقل بہا العقل
[1] ) الاستغاثۃ فی الرد علی البکری لابن تیمیہ: 1/381۔ ط دار الوطن الریاض۔ [2] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 5/554۔555۔