کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 166
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مجموع الفتاوی ضرور ملاحظہ کریں۔[1] اور جس مقصد کے لیے ان اکابرین امت کی عبارات دی ہیں وہ بڑا واضح ہے کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کے لیے آدمی کے پاس اللہ کی جانب سے کھلی اور روشن دلیل ہونی چاہیے جو احتمالات سے پاک اور مبرا ہو کیونکہ کسی مسلم کو کافرکہنے کا حق اللہ تعالیٰ کا ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فقد صرح علي رضی اللّٰه عنہ بأنہم مؤمنون لیسوا کفاراولا منافقین وہذا بخلاف ما کان یقولہ بعض الناس کأبي إسحاق الإسفراییني ومن اتبعہ یقولون: لا نکفر إلا من یکفر فإن الکفر لیس حقا لہم بل ہو حق اللّٰہ ولیس للإنسان أن یکذب علی من یکذب علیہ ولا یفعل الفاحشۃ بأہل من فعل الفاحشۃ بأہلہ بل ولو استکرہہ رجل علی اللواطۃ لم یکن لہ أن یستکرہہ علی ذلک ولو قتلہ بتجریع خمر أو تلوط بہ لم یجز قتلہ بمثل ذلک لأن ہذا حرام لحق اللّٰہ تعالیٰ ولو سب النصاری نبینا لم یکن لنا أن نسبح المسیح والرافضۃ إذا کفروا أبا بکر وعمر فلیس لنا أن نکفر علیا۔‘‘[2] ’’بلاشبہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے مومنین ہونے کی تصریح کی ہے کہ وہ کفار تھے اور نہ ہی منافقین اور یہ بات اس سوچ کے خلاف ہے جیساکہ بعض لوگ ابو اسحاق اسفرایینی کی طرح کے اور اس کے پیروکار کہتے ہیں کہ ہم صرف اس کی تکفیر کریں گے جو ہماری تکفیر کریں گا۔ پس یہ اصول غلط ہے تکفیر ان کا حق نہیں بلکہ وہ اللہ کا حق ہے اورنہ ہی انسان کے لیے جائز ہے کہ جو اس پر جھوٹ بولے، یہ بھی اس پر جھوٹ بول دے اورنہ ہی وہ کوئی برائی کرے کسی کے اہل خانہ کے ساتھ کہ جس نے اس کے اہل خانہ کے ساتھ برائی کی ہو بلکہ اگر کوئی آدمی اسے قوم لوط والے عمل پر مجبور کرے اس کے لیے جائز نہیں یہ بھی اس کام کے لیے اس پر جبر کرے اور اگر کسی آدمی نے شراب کے گھونٹ پلا کر اس کے ساتھ اغلام بازی کی ہو تو اس کی مثل اسے قتل کرنا جائز نہیں اس لیے کہ یہ حرام ہے اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے، اگر نصاریٰ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں تو ہمیں لازم نہیں کہ ہم بھی عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دیں اور اگر روافض ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی تکفیر کریں تو ہم علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر ہرگز نہیں کریں گے۔
[1] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: 12/487،489۔ 23/348،349۔ [2] ) منہاج السنۃ لابن تیمیہ: 5/244۔ بتحقیق دکتور احمد رشاد سالم ط اولی: 1406ھـ بمطابق: 1986م۔