کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 165
کفرا أو غیر کفر بل لا بد أن یکون الدلیل صریحا قاطعاً بأنہ کفر۔‘‘[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’سلطہ اورحکومت کے لیے ہم ان سے جھگڑا نہ کریں۔ الا یہ کہ تم صریح اور واضح کفر دیکھو، تمہارے پاس اس کے بارے میں اللہ کی طرف سے کوئی کھلی دلیل ہو۔‘‘ تو پھر ہم ان سے جھگڑ سکتے ہیں لیکن شروط پر غورکر: 1 ’’إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من اللّٰہ فیہ برہان‘‘ یعنی تم خود دیکھ محض سنی سنائی بات نہ ہو اس لیے کہ بسا اوقات ہم حکمرانوں کے بارے میں ایسی اشیاء سنتے ہیں جب ان کی تحقیق کرتے ہیں تو انہیں ہم صحیح نہیںپاتے۔ تو ضروری ہے کہ ہم روبرو خود دیکھیں خواہ یہ رؤیت علمی ہو یا رؤیت بصری و عینی ہو۔ 2 ’کفرا‘‘ یعنی وہ کفر ہو فسق نہ ہو اس لیے اگر ہم ان میں فسق اکبر بھی دیکھ لیں تو ہمارے لیے ان کے ساتھ جھگڑا کرنا جائز نہیں ہے۔ 3 ’’بواحا‘‘ یعنی ایسا صریح اور واضح کفر ہوجس میں تاویل کی گنجائش نہ ہو اگر اس میں تاویل ہو اور ہم اسے کفرسمجھ رہے ہوں لیکن وہ اسے کفر سمجھ رہے ہوں خواہ وہ اسے اپنے اجتہاد کی وجہ سے کفر سمجھتے ہوں یاجو ان کے خیال میں مجتہد ہے اس کی تقلید کرتے ہوئے کفر نہ سمجھتے ہوں تو ہم ان سے جھگڑا نہیں کریں گے اگرچہ وہ فی نفسہ کفر ہو۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے تھے کہ: جو شخص قرآن کو مخلوق کہے وہ لازماً کافرہو اور مامون (جو اس وقت حکمران تھا) کہتا تھا قرآن مخلوق ہے اور لوگوں کو اس عقیدے کی دعوت بھی دیتا رہتا تھا اور ترغیب بھی۔ اس کے باوجودامام احمد سے امیر المؤمنین کہتے تھے اسی لیے وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کو مخلوق ماننا اس کی نسبت سے بواح اور صریح نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ وہ کفر صریح ہو یا تاویل کا احتمال نہ رکھتا ہو اگر تاویل کا احتمال موجود ہو تو ہمارے لیے ان کے ساتھ جھگڑا کرنا حلال نہیں ہے۔ 4 ’’عندکم من اللّٰہ فیہ برہان‘‘ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے اس کے کفر صریح ہونے میں واضح دلیل یعنی قطعی اوریقینی دلیل ہونی چاہیے کہ یہ کفر صریح ہے محض ہمارا فہم نہ ہو کہ یہ کفر ہے اور دلیل اس کے کفر ہونے یا نہ ہونے کا احتمال نہ رکھتی ہو۔ بلکہ ضروری ہے کہ وہ دلیل صریح اور قطعی ہو کہ یہ کفر ہے۔ شیخ صالح عثیمین رحمہ اللہ نے جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے بات کی ہے اس کی تفصیل کے لیے
[1] ) شرح صحیح البخاری:4/259۔ ط دارالمستقبل مصر۔