کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 164
’’أي نص آیۃ أو خبر صحیح لا یحتمل التأویل۔‘‘[1] ’’اللہ کی طرف سے برہان سے مراد کسی آیت کی نص یا صحیح ناقابل تاویل حدیث ہو۔‘‘ امام بغوی فرماتے ہیں: ’’آیۃ أو سنۃ لا تحتمل التأویل۔‘‘[2] ’’اللہ کی طرف سے کوئی آیت یا ایسی سنت ہوجو تاویل کے قابل نہ ہو۔‘‘ شیخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں: ’’وقولہ: ((إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من اللّٰہ فیہ برہان)) ففي ہذہ الحال ننازعہم، لیکن انظر للشروط: الأول: (أن تروا) أي: أنتم بأنفسکم، لا مجرد السماع، لأننا ربما نسمع عن ولاۃ الأمور أشیاء فإذا تحققنا لم نجدہا صحیحۃ، فلا بد أن نحن بأنفسنا مباشرۃ، سواء کانتہذہ الرؤیۃ رؤیۃ علم أم رؤیۃ بصر، المہم أن نعلم۔ الثاني: (کفرا) أي: لا فسوقا فإننا لو رأینا فیہم أکبر الفسوق فلیس لنا أن ننازعہم الأمر۔ الثالث: (بواحا) أي: صریحا لیس فیہ تأویل، فإن کان فیہ تأویل ونحن نراہ کفرا، لکن ہم لا یرونہ کفرا، سواء کانوا لا یرونہ باجتہاد منہم أو بتقلید من یرونہ مجتہدا، فأننا لا ننازعہم ولو کان کفرا، ولہذاکان الإمام أحمد یقول: إن من قال: القرآن مخلوق فہو کافر، والمأمون کان یقول: القرآن مخلوق، ویدعوا الناس إلیہ ویحرص علیہ، ومع زلک کان یدعوہ بأمیر المؤمنین، لأنہ یری أن القول بخلق القرآن بالنسبۃ لہ لیس بواحا، أي: صریحا، فلا بد أن یکون ہذا الکفر صریحا لا یحتمل التأویل فإن کان یحتمل التأویل فإنہ لا یحل لنا أن ننازع الأمر أہلہ۔ الرابع: (عندکم من اللّٰہ فیہ برہان) أي: دلیل قاطع، بأنہ کفر، لا مجرد أن نری أنہ کفر۔ ولا مجرد أن یکون الدلیل محتملا لکونہ
[1] ) فتح الباری لابن حجر: 16/440۔ نیز دیکھیں: التوضیح لشرح الجامع الصحیح لابن الملقن: 32/285۔ ط دار الفلاح، شرح الجامع الصحیح لکرمانی: 24/113۔ دار احیاء التراث العربی، الفجر الساطع للزرہونی: 10/307۔ ط مکتبۃ الرشد، مصابیح الجامع للدمامینی: 12/289۔ ناشر الفاروق الحدیثیۃ، کشف لامشکل لابن الجوزی: 8/239۔ ط دارالکتب العلمیۃ، اللامع الصبیح للبرماوی: 17/13۔ ط دارالنوادر، عمدۃ القاری للعینی: 20/17۔ ط: المکتبۃ التوفیقیۃ، عون الباری للقنوجی: 6/305۔ ط دارالکتب العلمیۃ۔ [2] ) شرح السنۃ: 10/47۔