کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 16
امام غزالی اور مسئلہ تکفیر
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و الذي ینبغي ان یمیل المحصل إلیہ الإحتراز من التکفیر ما وجد إلیہ سبیلا، فإن استباحۃ الدماء و الأموال من المصلین إلی القبلۃ المصرحین بقول لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ خطأ، و الخطأ في ترک ألف کافر في الحیاۃ أہون من الخطأ في سفک محجمۃ من دم مسلم.‘‘ [1]
’’اور تکفیر سے بچنا چاہیے جب تک انسان اس کی طرف کوئی راہ پاتا ہے، تو یقینا قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں، ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ صراحت سے کہنے والوں کے خون اور اموال کو مباح سمجھنا خطا ہے اور ایک ہزار کافر چھوڑنے کی خطا کرنا کسی ایک مسلمان کے خون سے ہاتھ رنگنے کی خطا سے زیادہ ہلکا ہے۔‘‘
امام غزالی رحمہ اللہ کا یہ قول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے (فتح الباري بشرح صحیح البخاري، باب: 7، 16/192ط: دار طیبۃ، 12/300 ط سلفیۃ)کتاب استتابۃ المرتدین کے تحت درج کیا ہے۔
امام ابو الحسن علی بن اسماعیل الاشعری کا اعلان حق
امام محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی 748ھ) لکھتے ہیں:
’’رأیت للأشعري کلمۃ أعجبتني و ہي ثابتۃ رواہا البیہقي، سمعت أبا حازم العبدوي، سمعت زاہر بن أحمد السرخسي یقول: لما قرب حضور أجل أبي الحسن الأشعري في داري ببغداد، دعاني فأتیتہ، فقال: إشہد علی أني لا أکفر أحدا من أہل القبلۃ، لأن الکل یشیرون إلی معبود واحد، و إنما ہذا کلہ اختلاف العبارات۔‘‘[2]
’’میں نے اشعری کا ایک کلام دیکھا جس نے مجھے حیرت و تعجب میں ڈال دیا اور وہ ثابت ہے اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے انہوں نے کہا: میں نے ابو حازم العبدوی سے سنا، انہوں نے
[1] ) الاقتصاد فی الاعتقاد، ص: 143، ط: مکتبہ صبیح
[2] ) سیر أعلام النبلائ: 15/88، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ترجمۃ الأشعري، رقم: 51.