کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 159
لخطرہ العظیم۔‘‘[1] ’’لوگوں پر واجب ہے کہ وہ تکفیر مسلم سے اجتناب و فرار اختیارکریں اور اس کو اپنے علماء پر چھوڑ دیں اس لیے کہ تکفیر ایک بہت بڑاخطرناک مرحلہ ہے۔‘‘ امام ابن حبان مسئلہ تکفیر پر احادیث بیان کرتے ہوئے ان پر جو باب باندھتے ہیں وہ بھی بڑا قابل توجہ ہے یعنی ’’ذکر البیان بأن من أکفر إنسانا فہو کافرلا محالۃ‘‘ جو کسی مسلمان انسان کو کافر قرار دیتا ہے وہ لا محالہ کافرہو جاتا ہے اس کی تائید مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث سے ہوتی ہے جسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے۔[2] ’’عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : أیما رجل کفر رجلا فأحدہما کافر۔‘‘[3] ’’جس بھی شخص نے کسی شخص کو کافر قرار دیا تو ان دونوں میں سے ایک کافرہے۔‘‘ مسند احمد کے محققین نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ کیونکہ فتوی یا فیصلہ اور حکم لگانا کوئی آسان کام نہیں کہ ہر شخص تو درکنارہر عالم دین بھی اس پر فائز ہو۔ اس کی واضح مثالیں ہمیں صحابہ کرامf کے عہد مبارکہ میں نظر آتی ہیں۔ ایک آدمی سفر میں تھا تواس کی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا اور عورت کا دودھ رک گیا تو وہ شخص اسے چوسنے لگا تو دودھ اس کے حلق میں داخل ہو گیا وہ ابو موسیٰ اشعری کے پاس آیا توانہوں نے کہا وہ تم پر حرام ہو گئی ہے۔ پھر وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ان سے مسئلہ پوچھا تو ابو موسیٰ سے کہنے لگے آدمی کو جو فتوی دے رہے ہو اس پر غور کرو ابو موسی کہنے لگے: آپ کیا کہتے ہیں تو عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: رضاعت صرف وہ ہے جو دو سالوں میں ہو تو ابو موسیٰ نے کہا: ’’لا تسألوني عن شيء ما دام ہذا الحبر بین أظہرکم۔‘‘[4] ’’جب تک عبداللہ بن مسعود جیسا عالم تمہارے اندر موجود ہو مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھو۔‘‘ اور خلافت راشدہ کے وقت کتنے صحابہ کرام اس مسند پر فائز تھے، صرف چند باوجود اس امر کے ان سب
[1] ) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: 13/228۔ [2] ) صحیح ابن حبان: 1/483۔ [3] ) مسند احمد 9/200 (5260) إسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ۔ مؤسسۃ الرسالۃ۔ [4] ) مؤطا کتاب الرضاع (14)۔ مسند احمد 7/185،186(4114) ۔ إرواء الغلیل: 7/223،224۔ کتاب الأم للشافعی: 5/29۔ السنن الکبری للبیہقی: 7/462۔ معرفۃ السنن والآثار: 6/95 (4735)۔ سنن سعید بن منصور: 242/1 (975)۔ عبدالرزاق: 6/463 (13895) یہ روایت موقوفاً صحیح ہے۔