کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 157
علیہ الحجۃ۔‘‘[1] ’’اس مسئلہ میں تحقیق یہ ہے کہ بسا اوقات قول کفریہ ہوتا ہے جیسے جھمیہ کے اقوال کہ: بے شک اللہ کلام نہیں کرتا، اور آخرت میں دکھائی نہیں دے گا لیکن بعض لوگوں پر یہ بات مخفی رہتی ہے کہ یہ قول کفر ہے تو قائل کی مطلق تکفیر کی جاتی ہے جیسا کہ سلف صالحین کہتے تھے کہ جس نے کہا قرآن مخلوق ہے وہ کافر ہے اور جس نے کہا: بلاشبہ آخرت میں اللہ کی روئیت نہیں ہو گی وہ کافرہے۔ جبکہ کسی معین شخص کی اتنی دیر تک تکفیر نہیں ہو گی جب تک اس پر حجت قائم نہیں کی جاتی۔ اس طرح شیخ محمد بن عبدالوہاب لکھتے ہیں: ’’ومسالۃ تکفیر المعین مسألۃ معروفۃ إذا قال قولاً یکون القول بہ کفراً فیقال: من قال بہذا القول فہوکافر ولکن الشخص المعین إذا قال بذلک لا یحکم بکفرہ حتی تقویم علیہ الحجۃ التی یکفر تارکہا۔‘‘[2] ’’تکفیر معین کا مسئلہ معروف ہے جب کوئی شخص بات کہتا ہے تو وہ قول کفر ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے جس نے یہ قول کہا وہ کافر ہے لیکن جب کوئی معین شخص وہ بات کہے گا تو اتنی دیر تک اس پر کافر ہونے کا حکم نہیں لگایاجائے گا یہاں تک کہ اس پر وہ حجت قائم ہو جائے جس کا تارک کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ اس مختصر سی وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ مطلق اورمعین تکفیر کا فرق بھی ملحوط خاطر رکھا جاتا ہے تاکہ کسی فرد جماعت یا ادارے کی تکفیر سے پہلے اچھی طرح اصول و ضوابط کو دیکھا جائے جلد بازی کرتے ہوئے کہیں اور کے غضب کا شکار نہ ہو جائیں اورامت مسلمہ کے ناحق خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ نہ بیٹھیں۔ ہم نے کتاب کے اس حصے میں قرآن و سنت اور سلف صالحین آئمہ فقہاء محدثین کی تصریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے اصول و ضوابط تحریر کیے ہے جن کو تکفیر سے قبل دیکھنا ضروری ہے اگرچہ آئمہ کے کلام کا استقصاء و احاطہ نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے لیکن کافی حد تک قارئین کو مواد فراہم ہو گا اور 99 فیصد حوالہ جات ان کتب سے ماخوذ ہیں جو ہمارے مکتبہ میں موجود ہیں اور چند ایک ایسے حوالہ جات ہیں جو ہم نے کسی معتبر ماخذ کے حوالے سے لکھے ہیں لہٰذا ہم نے یہاں پر کچھ مبادیات اور اصول بیان کیے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی دنیاوی یا دینی علم کو حاصل کرنے کے لیے ہم پہلے اس کے مبادیات اور اصول کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا کہ تفسیر میں
[1] ) مجموع الفتاوی:7/619۔ [2] ) الدرر السنیۃ: 8/244۔ بحوالہ التکفیر وضوابطہ شیخ ابراہیم بن عامر الرحیلی، ص: 119.