کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 156
مباح قرار دینے کے لیے کسی واضح شرعی نص کی ضرورت ہے جس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش باقی نہ ہو اس طرح تکفیر کے مسائل میں اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ کسی قول یا فعل یا اعتقادی کا کفر ہونا اور یہ کہنا کہ جس نے یوں کیا یا یوں کیا یایوں کیا۔ یا یوں عقیدہ رکھا وہ کافر ہے اس کے بہت سارے دلائل ہیں مطلق تکفیر تو ہر داعی کرتا ہے لیکن معین تکفیر سے بڑے برے علماء احتیاط برتتے ہیں قرآنی آیات پر غور کیجیے۔ (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ )(المائدۃ: 72) ’’بلا شبہ یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔‘‘ (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ )(المائدۃ: 73) ’’بلاشبہ یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔‘‘ اس طرح کی کئی دیگر آیات کریمہ میں مطلق کفر کا بیان ہے یعنی جو یہ کہے کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے یا اللہ تین میں تیسرا ہے وہ کافر ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ جو شخص قرآن حکیم میں تحریف کا قائل ہے یا اللہ کے سوا کسی کی بندگی کرتا ہے وہ کافر ہے۔ یہ تکفیر کی صورت ایسی ہے جس میں کسی خاص فرد یا گروہ یا جماعت کو متعین کر کے کافر مشرک نہیں کہا گیا ہم نے اپنی کتاب ’’کلمہ گو مشرک‘‘ میں کسی شخص کو معین کر کے کافرمشرک نہیں کہا بلکہ امور شرک کا بیان کیا ہے اور بتایا ہے جو ان کا مرتکف ہو گا اس کا کلمہ اسے نفع نہ دے گا اگر اس نے موت کا پیغام آنے سے پہلے توبہ نہ کی۔ تکفیر معین کی دلیلوں میں سے قرآن حکیم کی اس قسم کی آیات پیش کی جا سکتی ہیں جیسا کہ ارشاد ہے: (أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ )(ہود: 68) ’’سن لو! بے شک ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ثمود کے کفر کا یقین کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں جوشیلے قسم کے نوجوان اکثر یہ غلطی کرتے ہیں کہ بات تکفیر مطلق سے شروع کر کے اس کو پھر معین فرد پر فٹ کر دیتے ہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والتحقیق فی ہذا أن القول قد یکون کفرا کمقالات الجہمیۃ الذین قالوا: ان اللّٰہ لا یتکلم ولا یری فی الآخر ولکن قدیخفی علی بعض الناس أنہ کفر فیطلق القول بتکفیر القائل کما قال السلف من قالا القرآن مخلوق فہو کافر ومن قال: إن یری فی الآخر فہو کافر ولا یکفر الشخص معین حتی تقوم