کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 155
دن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہر آدمی اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی میرے ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا یہاں تک کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے یہ قصہ آپ سے بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا پھر دو مرتبہ فرمایا: ((اللہم إنی ابرا الیک مماضع خالد۔))[1] ’’اے اللہ! جو خالد نے کیاہے اس سے میں بری ہوں۔‘‘ امام خطابی فرماتے ہیں: ’’أنکر علیہ الصجلۃ وترک التثبت فی امرہم قبل أن یعلم المراد من قولہم صبأنا۔‘‘[2] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کی جلد بازی اور ان کے معاملے میں ان کے قول ’’صبانا‘‘ ہم صابی ہوئے کی مراد جاننے سے پہلے تحقیق ترک کرنے پر نکیر فرمائی۔‘‘ اصل میں صأنا اس وقت کہتے ہیں جب وہ ایک دین سے نکل کر دوسرے دین کی طرف چلے جاتے تھے مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے بارے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ لوگ صابی ہو گئے ہیں تو بنو خزیمہ کے لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار ’’صبانا‘‘ کہہ کر کہا لیکن خالد بن ولید نے ان کے قتل کا حکم دیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر فرمائی معلوم ہوا کہ کلمہ اورکلمہ پڑھنے والے کی حرمت کا اسلام نے کتنا لحاظ کیا ہے۔ لہٰذا جب کسی شخص کا اسلام ثابت ہو جائے تو اس کے بارے اصل یہی ہے کہ اس کا اسلام باقی ہے یہاں تک کہ کوئی واضح شرعی نص اس کے اسلام کے زدلل کی موجود ہو۔ امام محمد بن اسحق المعروف بابن مندہ العبدی الأصبہانی (المتوفی 395ھ) اسامہ بن زید کی مذکورہ حدیث کئی طرق سے کتاب الایمان میں لائے اور ان پر یوں باب باندھا: ’’ذکر ما یدل علی أن قول لا إلہ الا اللّٰہ یمنع القتل۔‘‘[3] ’’اس بات کا بیان کہ لا الہ الا اللہ کہنا قتل سے منع کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا لا الہ الا اللہ کہنے والا شخص اپنے خون مال اور عزت کو محفوظ کر لینا ہے اس کی جان مال اور عزت کو
[1] ) صحيح البخاری، کتاب المغازی: 4339۔ [2] ) فتح الباری: 4/472۔ ط دار طیبہ نیز دیکھیں إعلام السنن: 2/293۔ ط دار الکتب العلمیہ۔ [3] ) کتاب الإیمان ص: 73۔ ط: دارالکتب العلمیہ۔