کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 15
’’إذا ضاقت علیک سبل التأویل و لم تجد طریقا تسلکہا في مثل ہذہ الأحادیث فعلیک أن تقرہا کما وردت و تقول من أطلق علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم اسم الکفر فہو کما قال و لا یجوز إطلاقہ علی غیر من سماہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم من المسلمین کافرا إلا من شرح بالکفر صدرا فحینئذ تنجو من معرۃ الخطر و تسلم من الوقوع في المحنۃ فإن الإقدام علی ما فیہ بعض البأس لا یفعلہ من یشح علی دینہ و لا یسمح بہ فیما لا فائدۃ فیہ و لا عائدۃ.‘‘[1]
’’جب تجھ پر تاویل کے راستے تنگ ہو جائیں اور ان جیسی احادیث کے بارے میں تو کوئی راستہ اختیار کرنے کی صورت نہ پائے تو تجھ پر لازم ہے کہ ان احادیث کو اسی طرح برقرار رکھ جیسے وہ وارد ہوئی ہیں اور تو کہہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر کا نام لیا ہے وہ اسی طرح ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: اور مسلمانوں میں سے جس کسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر ہونے کا اطلاق کیا ہے ان کے سوا کسی اور پر کفر کا اطلاق کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اس کے جس کا شرح صدر کفر کے ساتھ ہو چکا ہے تو اس وقت تو مصائب کے عیب سے نجات پا جائے گا اور مشقت میں واقع ہونے سے بچ جائے گا۔ اس لیے کہ جس کام میں کچھ خطرات ہوں اپنے دین کا حریص آدمی اس کا جلدی ارتکاب نہیں کرتا اور نہ ہی اس کام کو روا رکھتا ہے جس میں کوئی فائدہ اور بھلائی نہ ہو۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
’’فحتم علی کل مسلم أن لا یطلق کلمۃ الکفر إلا علی من شرح بالکفر صدرا … و ہذا الحق لیس بہ خفائ.‘‘ [2]
’’ہر مسلم پر لازم ہے کہ وہ کلمہ کفر کا اطلاق صرف اسی پر کرے جس کا کفر کے ساتھ شرح صدر ہو چکا ہو … اور یہ ایسا حق ہے جس میں کسی طرح کی پیچیدگی نہیں ہے۔‘‘
بقول شاعر:
یأبی الفتی إلا اتباع الہوی
و منہج الحق لہ واضح
’’نوجوان شخص خواہش کی پیروی کے سوا (ہر چیز)کا انکاری ہے، حالانکہ اس کے لیے حق واضح ہو چکا ہے۔‘‘
[1] ) السیل الجرار: 3/785-784.
[2] ) السیل الجرار: 3/785.