کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 14
روشن دلیل ہو جو سورج کی روشنی سے زیادہ واضح ہو۔ اس لیے کہ احادیث صحیحہ جو صحابہ کرام کی ایک جماعت کے طریق سے مروی ہیں ان میں ثابت ہے کہ جس نے اپنے بھائی سے کہا: ’’اے کافر!‘‘ تو یقینا اس کے ساتھ ان دونوں میں سے ایک لوٹے گا۔ اسی طرح صحیح بخاری (6103) میں اور صحیحین (بخاری: 6045 ، مسلم: 61) وغیرہما کے الفاظ ہیں: ’’جس نے کسی آدمی کو کفر کے ساتھ بلایا، یا کہا: اے اللہ کے دشمن، حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے مگر یہ حکم اسی پر لوٹ آتا ہے۔‘‘ ان احادیث میں اور جو ان کے مقام پر وارد ہوئی ہیں ان میں تکفیر میں جلد بازی کرنے کے بارے بہت بڑی ڈانٹ اور بہت بڑا وعظ و نصیحت ہے۔‘‘
اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’و قد قال اللّٰہ عزوجل: )وَلكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا) (النحل: 106) فلا بد من شرح الصدر بالکفر و طمانینۃ القلب بہ و سکون النفس إلیہ فلا اعتبار بما یقع من طوارق عقائد الشر لا سیما مع الجہل بمخالفتہا لطریقۃ الإسلام و لا اعتبار بصدور فعل کفري لم یرد بہ فاعلہ الخروج عن الإسلام إلی ملۃ الکفر و لا اعتبار بلفظ تلفظ بہ المسلم یدل علی الکفر و ہو لا یعتقد معناہ.‘‘ [1]
’’اوریقینا اللہ عزوجل نے فرمایا: (اور لیکن جس کا شرح صدر کفر کے ساتھ ہو گیا) تو کفر کے ساتھ شرح صدر اور اس کے ساتھ دل کا اطمینان اور اس کی طرف نفس کا سکون ضروری ہے۔ برے عقائد کے حوادث کے وقوع کا کوئی اعتبار نہیں، خصوصاً جب جہالت کی بنا پر دین اسلام کی مخالفت ہو اور کسی کفریہ فعل کے صادر ہونے کا بھی اعتبار نہیں جب اس کے مرتکب نے ملت اسلام سے ملت کفر کی طرف نکلنے کا ارادہ نہ کیا ہو اور نہ ہی مسلم کے ایسے الفاظ کا کوئی اعتبار ہے جو کفر پر دلالت کرتے ہوں اور وہ ان معانی کا وہ اعتقاد نہ رکھتا ہو۔‘‘
اسی طرح بعض وہ احادیث جن میں کسی فعل کے سر انجام دینے پر لفظ کفر وارد ہوا ہے جیسے:
((لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.))[2]
’’میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا، بعض تمہارے بعض کی گردنیں مارنے لگیں۔‘‘
ان کو ذکر کرنے کے بعد قاضی یمن محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] ) السیل الجرار: 3/784.
[2] ) صحیح بخاری: 1739, 7079۔