کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 136
اور عناد اس تصدیق کے منافی ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ جو شخص حلال سمجھ کر محرمات کا ارتکاب کرتا ہے وہ بالاتفاق کافر ہے کیونکہ جس نے قرآن کے محرمات کو حلال ٹھہرایا اس کا قرآن پر ایمان نہیں ہے اور وہ شخص بھی اسی طرح ہے جو محرمات کو حلال سمجھتا ہے مگر ان کا ارتکاب نہیں کرتا استحلال کے معنی اس عقیدے کے ہیں کہ اللہ نے ان کو حرام نہیں ٹھہرایا یا یہ کہ میں ان کی تحریم کا عقیدہ نہیں رکھتا۔‘‘[1] اور چونکہ کفر عناد بعض اوقات کھل کر سامنے نہیں آتا اس لیے اس کی مزید وضاحت کے لیے ہم آپ کو شیخ الاسلام کی ایک کتاب مجموع الفتاوی کی طرف لیے چلتے ہیں شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان لا یجحد وجوبہا لکنہ ممتنع من التزام فعلا کبرا أو حسدا أو بغضا للّٰہ ورسولہ فیقول اعلم أن اللّٰہ اوجبہا علی المسلمین والرسول صادق فی تبلیغ القرآن ولکنہ ممتنع عن التزام الفعل استکبارا أو حسدا للرسول أو عصبیۃ لدینہ او بغضا لما جاء بہ الرسول فہذا أیضا کافر بالاتفاق فان إبلیس لما ترک السجود المأموربہ لم یکن جاحدا للایجاب فان اللّٰہ تعالی باشرہ بالخطاب وانما أبی واستکبر وکان من الکافرین وکذلک ابو طالب کان مصدقا للرسول فیما بلغہ لکنہ ترک اتباعہ حمیۃ لدینہ وخوفا من عار الانقیاد۔‘‘[2] ’’یعنی وہ نماز کے وجوب کا انکار نہیں کرتا لیکن اس کے نزدیک اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ تکبر، حسد، اللہ اور اس کے ساتھ بغض ہے پس وہ کہتا ہے کہ: میں جانتا ہوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تبلیغ میں صادق ہیں لیکن اس پر عمل کرنے کے لیے اس کے پاس ممانعت کی صورت میں تکبر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد ہے یا اپنے دین کی عصبیت ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لائے اس کے ساتھ بغض ہے۔ تو یہ بالاتفاق کافر ہے جیسا کہ ابلیس نے جب سجدہ ترک کیاجس کا اسے حکم دیا گیا تھا تو وہ سجدہ کے وجوب سے انکار نہ کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو أبی واستکبر وکان من الکافرین کا مرتکب ٹھہرایا اور اس کو کفارمیں شمارکیا اسی طرح ابو طالب کا معاملہ ہے وہ رسول کی اس کام میں تصدیق کرنے والا تھا جو اسے پہنچا لیکن اتباع رسول کو اپنی دینی حمیت اور اطاعت کے طعنہ کا
[1] ) الصارم المسلول اردو ص: 665۔666۔ ط مکتبہ قدوسیہ: 2011م۔ [2] ) مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 20/97۔98۔