کتاب: مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط - صفحہ 13
’’کفر ایک شرعی حکم ہے اور یہ صرف شرعی ادلہ سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘ شرعی طور پر کسی شخص کو کافر قرار دینے والے کے لیے علوم کتاب و سنت کا ماہر ہونا ضروری ہے، جو شرعی احکام، اہداف، مقاصد اور اصول و ضوابط کا ادراک رکھتا ہو اور ان احکام اور اصول کی تطبیق، لوگوں کے احوال، ان کی اخطائ، تاویلات و جہالت اور قیامِ حجت کی رعایت رکھنے والا ہو۔ غالیوں کے غلو، انتہا پسندوں کی انتہا پسندی اور مفرطین کے افراط و تفریط سے کوسوں دور ہو۔ اس لیے کہ تکفیر کا مسئلہ انتہائی خطیر اور اس کے متابعات یعنی نتائج خطرناک ہیں۔ بری ترین خطائوں میں سے بعض جہال بدمست افراد کا مسند افتا کو اپنے ہاتھ میں لے کر فتویٰ بازی کرنا اور مسلمانوں کے اموال و اعراض اور خونوں کو حلال جاننا اور اس کے لیے مادہ متفجرہ کو بروئے کار لانا ہے۔ تکفیر کا شرعی اصول و ضوابط سے ہٹ کر فیصلہ کرنا ایک مرضِ قاتل اور سہم مسموم ہے۔ امت مسلمہ کے اکابر علمائے کرام، زعمائے عظام، قضاۃ فِخام اور مفتیانِ ذی وقار نے مسلم کی تکفیر سے ہمیشہ امت کو ڈرایا ہے۔ قاضی شوکانی کی تنبیہ قاضی قطریمانی محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اعلم أن الحکم علی الرجل المسلم بخروجہ من دین الإسلام و دخولہ في الکفر لا ینبغي لمسلم یؤمن باللّٰہ و الیوم الآخر أن یقدم علیہ إلا ببرحان أوضح من شمس النہار فإنہ قد ثبت في الأحادیث الصحیحۃ المرویۃ من طریق جماعۃ من الصحابۃ أن من قال لأخیہ: یا کافر! فقد باء بہا أحدہما، ہکذا في الصحیح و في لفظ آخر في الصحیحین و غیرہما من دعا رجلا بالکفر أو قال عدو اللّٰه و لیس کذلک إلا حار علیہ أي رجع و في لفظ في الصحیح ’’فقد کفر أحدہما‘‘ ففي ہذہ الأحادیث و ما ورد موردہا أعظم زاجر و أکبر واعظ عن التسرع في التکفیر.‘‘ [1] ’’جان لو کہ مسلمان آدمی پر دین اسلام سے خروج اور کفر میں دخول کا حکم لگانا کسی ایسے مسلم کے لیے جائز نہیں ہے جو اللہ عزوجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ یہ اقدام کرے، مگر ایسی
[1] ) السیل الجرار: 3/783 ط: دار ابن کثیر طبع اول 1421ھـ/ 2000م۔