کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 95
سخت نقصان پہنچایا ہے؟ جیسے تقلید کی بدعت ہے، جس کو فرض ووجوب کادرجہ دیا ہواہے، حالانکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان: (شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللّٰهُ ۚ) ’’انھوں نے دین کے نام پر بہت سی چیزیں ایسی مقرر کر لیں جن کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔‘‘[1] کی مصداق ہے۔ اس تقلید نے امت کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔ ان کے درمیان اتحاد و اتفاق کی راہیں ہمیشہ کے لیے بند کردیں، اللہ اور اس کے رسول سے ناتا تڑوا کر غیر معصوم اُمّتیوں کے ساتھ ان کو جوڑ دیا اوران کو مقام نبوت و عصمت پر فائز کروا دیا، قرآن و حدیث میں ظاہری و باطنی (معنوی) تحریفات کی شوخ چشمانہ جسارت کا حوصلہ ان کے اندر پیدا کیا اورمتعدد قباحتیں اور خرابیاں ہیں جو تقلید ناسدید کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ کیا اس سب کے باوجود اس بدعت تقلید کو ’’بدعت حسنہ‘‘ یا ’’فرض و واجب‘‘ تسلیم کرلیں؟ نہیں، یقینا نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ (كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ﴿٥﴾)[2] بدعتِ میلاد کو دیکھ لیجیے،اس نے بھی کتنی قیامتیں ڈھائی ہیں۔ اس بدعت نے یہودو نصاریٰ کی طرح دین کو لہو و لعب بنادیا۔ فرائض و سنن سے یکسر غافل کرکے عوام کو خرافات میں الجھا دیا ہے اور اسراف و تبذیر کے شیطانی کام کو مستحسن و پسندیدہ قرار دے دیا ہے۔ اوراس طرح کی دیگر متعدد خرابیاں ہیں جو ’’جشن میلاد‘‘ کے نتیجے میں معاشرے میں ظہور پذیر ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ یہی حال دیگر بدعات کا ہے کہ ان سے اسلام کے اصل احکام و فرائض فراموش ہورہے ہیں اوران کی جگہ خود ساختہ رسومات اورخانہ ساز عبادات اہم تر ہورہی ہیں،
[1] الشورٰی 21:42۔ [2] الکھف 5:18۔