کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 94
قرآن کریم کی اس آیت میں بھی مومنین سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، ان کی پیروی کو نجات کا اور اس سے انحراف کو جہنم کا ذریعہ بتلایا گیا ہے۔ اس آیت سے بھی اجماعِ صحابہ کی حجیت کا اثبات ہوتا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ قول مرفوع حدیث نہیں بلکہ ان کا اپنا قول ہے جس میں انھوں نے اجماع صحابہ کی وہ شرعی حیثیت واضح کی ہے جو دوسرے دلائل سے بھی ثابت ہے، اس لیے اس میں بیان کردہ حقیقت صحیح ہے اور وہ صحابۂ کرام تک محدود ہے، بعد کے مسلمانوں کی اکثریت ان خوبیوں سے متصف نہیں رہی، اس لیے ان کا قول و عمل بھی قابل اعتبار نہیں رہا، وہ صحیح منہج سے بھی دور ہوگئی اور اتباع کے بجائے ابتداع کا راستہ اس نے اختیار کرلیا۔ علاوہ ازیں اس کے تقلیدی سلسلوں اوراکابر پرستی نے اس کے لیے اتحاد و اتفاق کی تمام راہیں بھی مسدود کردی ہیں، وہ کسی ایک بات پر کس طرح متفق ہوسکتی ہے؟ چنانچہ دیکھ لیجیے، دین کے نام پر جتنی بدعات رائج ہیں، ان کی اکثریت کی حیثیت علاقائی ہے، یعنی ہر علاقے اور ملک میں الگ الگ بدعات اور الگ الگ صورتیں ہیں۔ کیا کسی ایک بدعت پربھی عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے؟ اس صورت میں کوئی بدعت، حسنہ کس طرح ہوسکتی ہے؟ اور یہ نام نہاد مسلمان کس طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا مصداق ہو سکتے ہیں؟ ’’بدعات حسنہ‘‘ نے دین کو فائدہ پہنچایاہے یا شدید نقصان؟ علاوہ ازیں یہ بدعات جن کو یاران سرپل بدعات حسنہ باور کرانا چاہتے ہیں، دینی لحاظ سے ان کا جائزہ لیجیے کہ کیا وہ دین کے لیے مفید رہی ہیں یا ہیں یا دین کو انھوں نے