کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 92
دِینِہٖ، فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَیِّئًا فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَيِّ ئٌ‘ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دل دیکھے تو تمام بندوں کے دلوں سے اصحاب محمد کے دلوں کو سب سے بہتر پایا، پس ان کو اللہ نے اپنے نبی کا وزیر بنا دیا، وہ اس کے دین کی خاطر لڑائیاں کرتے ہیں۔ پس (یہ) مسلمان جس چیز کو حسن خیال کریں،وہ اللہ کے ہاں بھی حسن ہوگی اور جس کو یہ برا سمجھیں، وہ اللہ کے ہاں بھی بری ہوگی۔‘‘ اس سیاق میں اس اثر کی صحیح حیثیت بھی سامنے آجاتی ہے اور صحابہ، حق کا معیار اور کسوٹی کیوں قرار پائے؟ اس کی وجہ بھی واضح ہوجاتی ہے۔ دوسری وجہ اجماعِ صحابہ کے حجتِ شرعیہ ہونے کی یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا دور اسلام کا بہترین دور ہے، زبانِ رسالت نے اسے خیر القرون سے تعبیر فرمایا ہے، اس لیے یہ دور بدعات سے اور دیگر شروروفتن سے محفوظ تھا۔ اس دور کے مسلمان نہ بدعت کا تصور کر سکتے تھے اورنہ کسی بدعت پر وہ متفق ہوسکتے تھے۔ دین میں ذرا سا بھی انحراف اور اتباعِ رسول سے بال برابر بھی ہٹنا ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ اس میں کتنی دینی غیرت اوراتباع رسول کا کیسا عظیم جذبہ ہے؟ فرماتے ہیں: ’یُوشِکُ أَنْ تَنْزِلَ عَلَیْکُمْ حِجَارَۃٌ مِّنَ السَّمَائِ، أَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَتَقُولُونَ: قَالَ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ‘ ’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوجائے، میں کہتا ہوں: