کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 91
سمجھ کر اپنا لیں وہ بدعت حسنہ ہے۔ اوراس اثر کو وہ حدیث رسول باور کراتے ہیں۔ لیکن اول تو یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، لہٰذا ان قطعی نصوص کے مقابلے میں اسے پیش کرنا درست نہیں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی منقول ہے: ’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘ ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ اور اگر بالفرض اسے قابل استدلال سمجھاجائے تو پھراس سے مراد اجماع صحابہ ہے، سو ابن مسعود کے نزدیک المسلمون سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا جس بات پر اجماع ہوجائے، وہ یقینا عنداللہ بھی حسن ہوگی کیونکہ صحابۂ کرام کا کسی بھی غلط کام پر اجماع نہیں ہوسکتا، جیسے صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن پر مامور فرمایا۔ مانعین زکاۃ سے قتال کیا وغیرہ۔ یہ سارے امور ایسے ہیں کہ اولاً صحابہ نے توقف اور اختلاف کا اظہار کیا جیسا کہ تاریخ میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف سے سب متفق ہو گئے اورمذکورہ امور پر سب کا اجماع ہوگیا۔ صحابۂ کرام کا اجماع کیوں حجت شرعیہ ہے؟ اس لیے کہ ایک تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست فیض یافتہ تھے، اس صحبت و تربیت نبوی سے وہ صراطِ مستقیم کے منہج کو صحیح طورپر سمجھ گئے تھے اوراس فہمِ صحیح نے انھیں اتباعِ رسول کے جذبے میں پختہ تر کردیا تھا، چنانچہ اسی زیر بحث اثر میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں: ’ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِہٖ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَھُمْ وُزََرَائَ نَبِیِّہٖ، یُقَاتِلُونَ عَلٰی