کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 89
نام اور عنوان پر دین میں کمی بھی کی جاسکتی ہے؟ مثلاً: گرمیوں کے روزوں میں سارا دن دھوپ میں کام کرنے والے مزدوروں ، کاریگروں، مستریوں اورکسانوں وغیرہ کو روزوں کی چھوٹ دی جاسکتی ہے؟ کیونکہ ایسے لوگوں کے لیے محنت مزدوری کے ساتھ سخت گرمی میں روزے رکھنے نہایت مشکل ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے نمازوں میں بھی تخفیف کی جاسکتی ہے، پانچ کے بجائے نمازیں دو کر دی جائیں یا وقت کی پابندی ختم کردی جائے تاکہ تجارت و کاروبار سے فراغت کے بعد اکٹھی پڑھ لی جائیں تاکہ معاشی طورپر ملک ترقی کرسکے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ اگربدعت حسنہ کے نام پر اضافہ جائز ہے تو پھر دین میں کمی کرنا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اگر اضافے کے اسباب اہمیت رکھتے ہیں تو کمی کے اسباب بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ دین میں اس طرح من مانی کرنے سے دین کا کس طرح حلیہ بگڑے گا جیسا کہ بگڑ رہا ہے، اس کا آپ آسانی سے اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت بھی دین کو، اضافہ کرنے والوں نے لہو و لعب اور کھیل تماشا بنادیا ہے، اگر کمی بھی شروع کردی گئی جو کہ اضافے کے جواز کا منطقی نتیجہ ہے تو دین سراسر بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ سادساً: بدعت حسنہ کا مطلب، دین میں بگاڑ اور تحریف ہے، اس لیے کہ آئے دن نئی عبادت کا اضافہ کرکے اس کو بدعت حسنہ قرار دے دیا جائے جیسا کہ ہو رہا ہے اور یوں بدعات، یعنی نئی عبادات روز افزوں ہیں۔ تو اس طرح ظاہر بات ہے کہ عبادات کے اضافے سے اصل دین میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ سابقہ دینوں میں بھی تحریف اورفساد اسی طرح پیدا ہوا تھا، اب دین اسلام کا بھی اہل بدعت نے وہی حال کر رکھا ہے جو یہودو نصاریٰ نے اپنے اپنے دینوں کے ساتھ کیا تھا۔ وہ تو اللہ کی مشیت چونکہ دین