کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 87
بدعت کو بدعت حسنہ ہی قرار دیتے ہیں، کوئی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی بدعت گمراہی والی ہے۔اس اعتبارسے دیکھا جائے تو صدیوں سے بدعت سازی کا جو کام ہوتا چلا آرہا ہے اور سینکڑوں بدعتیں اب تک ایجاد ہوچکی ہیں اور اب بھی عالم اسلام میں جو بے شمار مختلف قسم کی بدعات رائج ہیں،وہ سب کی سب حسنہ ہی قرار پائیں گی اور یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ‘ عبث اور یکسرلا حاصل قرار پائے گا کیونکہ بدعت ضلالہ کا تو پھر کہیں وجود ہی نہیں ہے، سب (ماشاء اللہ) بدعات حسنہ ہی ہیں۔ فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔سَائَ مَا یَحْکُمُونَ۔ ثالثاً:بدعت سازی، اللہ اور رسول کے مقابلے میں شریعت سازی ہے گویا یہ اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ حریفانہ کشمکش ہے۔ کیا اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ مقابلہ کرنے اور ان کی مخالفت کرنے میں کوئی حسن، کوئی خوبی اور کوئی کمال ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں، ہر گز نہیں، پھر کوئی بدعت، حسنہ کس طرح ہوسکتی ہے؟ رابعاً: بدعت کو حسنہ قرار دینے کا ضابطہ یا اصول کیا ہے؟ اگر کہا جائے کہ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جو بدعت شریعت کے موافق ہو، وہ بدعت حسنہ ہے۔ تو قابل غور بات یہ ہے کہ جو عمل موافق شرع ہو، وہ تو سرے سے بدعت کے ذیل ہی میں نہیں آتا۔ اس کو بدعت حسنہ کہنے میں کیا تُک ہے؟ گویا بدعت کے ساتھ حسنہ کا اضافہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، ورنہ اس کا الگ نام (بدعت) رکھ کر اس کے ساتھ حسنہ کا لفظ لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، جیسے ظہر کی فرض نماز چار رکعت ہیں۔ اب اگر کوئی چار کی جگہ چھ رکعات فرض بتلاتا ہے اوراس کو بدعت حسنہ قرار دیتا ہے تو اس کا اس عمل کو بدعت حسنہ کہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل شریعت کے موافق نہیں بلکہ مخالف ہے کیونکہ موافقِ شرع عمل کو بدعت حسنہ