کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 78
’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کو ٹوکا اور فرمایا: ’وَأَنَا أَقُولُ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ، وَلَیْسَ ھٰکَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ‘ ’’میں بھی کہتا ہوں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ لیکن (چھینک کے موقع پر) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نہیں سکھایا بلکہ ہمیں سکھایا ہے کہ ہم کہیں: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ۔‘‘ اس روایت کی سند میں بعض لوگوں نے کلام کیا ہے۔ لیکن شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ رشید علامہ سلیم بن عید الہلالی نے اس کی سند کوحسن قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو:البدعۃ وأثرھا السئ في الأمۃ، ص: 49، طبع: 2006، خود شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ’’صحیح الترمذی‘‘ میں درج کیا ہے۔ ٭ ایک شامی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ وہ جائز ہے۔ اس شامی نے کہا: آپ کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو اس سے روکا ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَھٰی عَنْھَا وَصَنَعَھَا رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَ أَمْرُ أَبِي یُتَّبَعُ أَمْ أَمْرُ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ؟‘ ’’ذرا بتلا! اگر میرے والد نے اس سے منع کیا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے تو میرے والد کی بات مانی جائے گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ؟‘‘ اس نے کہا: بَلْ أَمْرُ رَسُولِ اللّٰہِ بات تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مانی جائے گی۔