کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 73
بنانے اور استعمال کرنے کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی شخص ان چیزوں کو اجرو ثواب کی نیت سے استعمال نہیں کرتا۔ ’’شریعت کے مشابہہ‘‘ کی قید سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دیکھنے میں بظاہر اس کا تعلق دین و شریعت سے معلوم ہوتا ہے یا باور کرایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں، جیسے کوئی شخص روزہ رکھے اور کسی سے کلام نہ کرے۔ یا وہ نذر مان لے کہ سارا دن دھوپ میں کھڑا رہے گا، نہ بیٹھے گا اور نہ سائے والی جگہ میں آئے گا، رجب کی پہلی جمعرات کو مخصوص طریقے سے متعین تعداد میں نماز پڑھنا جس کو صلاۃ الرغائب کہا جاتا ہے، اجتماعی ذکر بالجہر، اسی طرح کی دیگر بعض عبادات جو خود ساختہ طریقے سے مخصوص ہیئات و کیفیات کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں وغیرہ۔ روزہ رکھنا، نذر ماننا، ذکر اللہ کرنا، نوافل پڑھنا وغیرہ، یہ سارے امور بظاہر شرعی امور ہیں گویا شریعت کے مشابہہ ہیں لیکن مذکورہ کیفیات کے ساتھ حقیقت میں شریعت نہیں ہیں کیونکہ شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ملتی۔ علاوہ ازیں ظاہر شکل و صورت کے اعتبار سے یہ عبادات لگتی ہیں لیکن ہیئت و کیفیت میں شریعت کے خلاف ہیں، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل یا تقریر سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، جبکہ عبادات کے لیے ضروری ہے کہ ان کی پوری کیفیت شرعی دلائل سے ثابت ہو، نیز عبادات سے مقصود اجرو ثواب اور تقربِ الٰہی کا حصول ہوتا ہے اور وہ تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کی جائیں۔ اپنے خود ساختہ طریقے سے کیے جانے والے کام نہ وہ عبادت ہیں اور نہ عمل صالح بلکہ وہ بدعت ہوں گے۔