کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 65
کا ارتکاب کرتے ہوئے فوت ہوئے ہوں گے۔ ان کے لیے یقینا مغفرت نہیں ہے، وہ ہمیشہ جہنم ہی کا ایندھن رہیں گے، جنت ان پر حرام ہے۔ وہ کوئی بھی ہوں، کسی بھی قوم اور مذہب سے ان کا تعلق ہو۔ وہاں مذہب اور قومیت کا خانہ نہیں دیکھا جائے گا، صرف عقیدہ اور عمل دیکھا جائے گا، جن کے عقیدہ و عمل میں شرک کی گمراہی نہیں ہوگی، ان کو اللہ چاہے گا تو پہلے مرحلے ہی میں معاف فرما دے گا، بصورت دیگر سزا کے بعد معافی مل جائے گی۔ لیکن مشرکانہ عقائد واعمال کے حامل لوگوں کے لیے معافی نہیں ہے، وہ جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ ثانیاً: امت محمدیہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے جہنم میں جانے کامطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ جنت میں دوسری امتوں کے مقابلے میں یہ امت کم ہو گی۔ ایسا نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ نبوت بہت زیادہ، یعنی قیامت تک ہے جس کی مدت کا تعین نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ہردور کے اہل حق، چاہے وہ تعداد میں تھوڑے ہی رہے ہوں، قیامت تک کے اہل حق کو ملا کر بہت بڑی تعداد میں ہو جائیں گے۔ اس طرح حدیث کے مطابق اہل جنت کی اکثریت امت محمدیہ ہی کے افراد پر مشتمل ہو گی۔ علاوہ ازیں بعد میں بھی ایک بہت بڑی تعداد اپنی اپنی سزا بھگت کرجہنم سے نکل کر جنت میں چلی جائے گی۔ ان کے لیے بھی جب اللہ کی مشیت ہو گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ شفاعت فرمائیں گے، کچھ فرشتے اور صلحاء واتقیاء بھی سفارش کریں گے اور آخر میں کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل و کرم سے معاف فرمائے گا اور یوں اہل ایمان سب کے سب جنت میں پہنچ جائیں گے، جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جو مرتے دم تک مشرکانہ عقیدوں کے حامل اور عامل رہے، ان کا دائمی ٹھکانا جہنم ہی ہو گا، اس لیے کہ مشرک اور کافر کے لیے جنت حرام ہے۔