کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 51
یَارَسُولَ اللّٰہِ! اِسْمَعْ قَالَنَا وَانْظُرْ حَالَنَا إِنِّي فِي بَحْرِ غَمٍّ مُّغْرَقٌ، خُذْ بِیَدِي سَھِّلْ لَنَا أَشْکَالَنَا حالانکہ یہ سب شرکِ صریح کے مظہر ہیں لیکن مختلف عنوانات سے اس شرک کا ارتکاب عام ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے شراب کی بوتل پر روح افزا کا لیبل لگا دیا جائے تو کیا وہ شراب، شربتِ روح افزا میں تبدیل ہو جائے گی؟ حرام کے بجائے حلال ہوجائے گی؟ اس کا استعمال جائز ہو جائے گا؟ نہیں، یقینا نہیں، کسی حرام چیز کا نام بدل لینے سے وہ حلال نہیں ہو سکتی، اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی اور اس کا استعمال جائز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جب شرک کی حقیقت یہ ہے کہ وہ غیر اللہ میں، چاہے وہ پتھر ہو، شجر ہو، نبی ہو، ولی ہو، زندہ ہو یا مردہ ہو، اللہ والی صفات تسلیم کرنا ہے۔ تو یہ شرک ہر جگہ عام ہے، بت پرست ہی یہ نہیں کرتے، نام نہاد مسلمان بھی بڑی تعداد میں قبر پرستی کی صورت میں اور بزرگوں کی محبت کے عنوان پر اس کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے: (إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ) ’’بے شک اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا، اس کے علاوہ دوسرے گناہ جس کے چاہے گا معاف کر دے گا۔‘‘[1] (إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿٧٢﴾) ’’بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، یقینا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں (مشرکوں) کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔‘‘[2]
[1] النسآء 48:4۔ [2] المآئدۃ 72:5۔