کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 42
یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے، اس میں حسب ذیل الفاظ ہیں: ’اِثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ وَھِيَ الْجَمَاعَۃُ‘ ’’میری امت کے 73 فرقوں میں سے 72 فرقے جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ اور وہ جماعت ہے۔‘‘[1] اور دوسری تصریحات کی روشنی میں ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے طریقے پر چلنے والے لوگ ہیں۔ اسی لیے صحابۂ کرام کے منہاج پر چلنے والے گروہ کو اہل سنت و الجماعت کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے والے اور صحابۂ کرام کے پیروکار، یعنی خالص بے آمیز اسلام پر چلنے والے لوگ۔ اس اعتبار سے جنتی لوگ صرف وہ ہوں گے جو اہل سنت و الجماعت کے صحیح مصداق ہوں گے۔ محض اہلِ سنت نام رکھ لینے سے کوئی اس حدیث کا مصداق نہیں بن سکتا، جیسے ایک باطل ٹولہ اپنے کو ’’مومن‘‘ کہلواتا ہے اور دوسرے مسلمانوں کو وہ مومن نہ کہتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ تو جس طرح یہ نام کے ’’مومن‘‘ حقیقی معنوں میں مومن نہیں ہیں، اسی طرح اہل سنت کا لیبل لگا لینے سے بھی کوئی اہل سنت نہیں بن جائے گا بلکہ عند اللہ اہل سنت بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح سنتوں پر چلنے والا ہو، نہ بدعت ایجاد کرنے والا ہو اور نہ بدعتوں پر چلنے والا ہو اور نہ بدعتوں کے اثبات کے لیے قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کرنے یا ان میں من مانی تاویل کرنے والا ہو۔ کیونکہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے لیے من مانی تاویلات کی ضرورت ہے نہ ان کو ان کے ظاہری اور واضح مفہوم سے ہٹا کر ان میں معنوی تحریف و
[1] سنن أبي داود، السنۃ، باب شرح السنۃ، حدیث: 4597۔