کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 380
نماز عید کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تو یہی ہے کہ آپ نے بغیر مجبوری کے ہمیشہ نماز باہر کھلے میدان (عید گاہ) میں ادا کی ہے اور اس کی تاکید بھی فرمائی حتی کہ پردہ دار اور ایام مخصوصہ والی عورتوں کو بھی نکلنے اور عید گاہ میں حاضر ہو کرمسلمانوں کی دعاؤں میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے۔ اب جو مسجد میں عید پڑھنے کو معمول بنا لیتا ہے تو یہ سنت کے خلاف عمل ہے جو کہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ شوال کے چھ روزے رکھنے کے بعد پھر عید منانا یہ بھی ہماری غلط سوچ ہے کیونکہ کسی بھی حدیث میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا، لہٰذا جو عمل نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام اور تابعین سے ثابت ہی نہیں، وہ کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے؟ اللہ ہمیں کامل دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ عربوں کے ہاں اس مہینے کو بھی منحوس سمجھا جاتا تھا عربوں میں بد اعتقادی کی جو بیماری عام تھی، اس کی وجہ سے وہ اس مہینے کو بھی منحوس سمجھتے اوراس مہینے میں شادی کو براشگون خیال کرتے تھے۔ اسی بد اعتقادی کی تردید کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فِي شَوَّالٍ وَبَنٰی بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَائِ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ أَحْظٰی عِنْدَہٗ مِنِّي؟ قَالَ: وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَائَہَا فِي شَوَّالٍ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے ساتھ نکاح بھی شوال کے مہینے میں ہوا اورآپ کے ساتھ میری رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ عزیز