کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 38
دین حق کی پیروی کی تاکید اور اہل حق کے لیے خوش خبری
یقینا وہ لوگ خوش نصیب اور سعادت مند ہیں جو نہ معاشرے کے رسم و رواج اور روشِ عام کو دیکھتے ہیں اور نہ لوگوں کے طعن و تشنیع کی پروا کرتے ہیں بلکہ صرف اور صرف اتباعِ رسول کا اہتمام کرتے اور صحابہ و سلف صالحین کے منہاج کو اختیار کرتے ہیں، اس لیے کہ مسلمانوں کو اسی بات کی ہدایت اور تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا، فَإِنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِي فَسَیَرٰی اِخْتِلَافًا کَثِیرًا، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ الْمَھْدِیِّینَ تَمَسَّکُوا بِھَا، وَعَضُّوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الأُْمُورِ، فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘
’’میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور (اپنے حکمران کی) بات سنو اور مانو، چاہے وہ حبشی غلام ہی ہو (بشرطیکہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو) بلاشبہ جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت اختلاف دیکھے گا، اس لیے تم میرے اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانتوں سے اس کو پکڑنا اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچنا، اس لیے کہ (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘[1]
[1] سنن أبي داود، السنۃ، باب في لزوم السنۃ، حدیث: 4607۔