کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 378
نہایت المناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ روزے داروں میں سے اکثر لوگ رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی نمازوں وغیرہ سے تعلق تو ڑ لیتے ہیں اورنہایت دیدہ دلیری سے معصیت آلود زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی مسجدوں کی وہ رونق بھی کم ہوجاتی ہے جو رمضان میں دیگر ایام کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہوجاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اکثریت کا یہ طرز عمل نہایت غلط اوررمضان المبارک کے سارے اچھے اثرات کو زائل کردینے والا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کے روزے اوراس مہینے کی عبادات سے ہمارے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی ہے نہ ہمارے معمولاتِ زندگی میں کوئی تغیر و اقع ہوتا ہے۔ جو جس ڈگر پر چل رہا ہوتا ہے وہ بدستور اسی پر قائم رہتا ہے اوراصلاح احوال اور تبدیلی کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری یہ سوچ اور طرز عمل ہی ہے کہ رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی ہم دوبارہ بلا تأمل اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں اور بعض تو روزے کی حالت میں بھی روزے کے منافی تمام کام کرتے رہتے ہیں، یوں رمضان کے روزے ان کے اوپر سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے چکنے گھڑے کے اوپر سے پانی گزر جاتا ہے، اس پر پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹھہرتا۔ بنا بریں رمضان المبارک کے بعد نفلی روزوں کا اہتمام اس بات کی یاددہانی کراتا ہے کہ رمضان کے فرضی روزوں اوراس کی راتوں کے قیام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے جو رابطہ و تعلق استوار ہوا ہے، اسے نہ صرف قائم رکھا جائے بلکہ اسے روز افزوں کیا جائے۔ اور جو شخص شعوری طورپر اس کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ یقینا اس کی مدد کرتا اور اسے ایمان و روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر فائز فرما دیتا ہے۔