کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 37
(پیغمبر) آیا، پس کافروں نے کہا: یہ تو عجیب بات ہے۔‘‘[1]
(أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ)
’’انھوں نے کہا: کیا ایک بشر ہماری رہنمائی کرے گا؟ چنانچہ انھوں نے (ایک بشر کو رسول ماننے سے) انکار کر دیا اور منہ موڑ لیا۔‘‘[2]
اسی طرح اخوت اسلام، قانونی مساوات، معاشی عدم استحصال، معاشرتی اصلاحات اور دیگر اسلام کی امتیازی تعلیمات ان کے لیے انوکھی اور عجیب تھیں، ان پر عمل پیرا مسلمان اس معاشرے میں انوکھے، اجنبی اجنبی سے اور حقیر سمجھے جاتے تھے۔ لیکن زبان رسالت سے ان کے لیے تحسین و آفرین اور حوصلہ افزائی کے کلمات بلند ہوئے: فَطُوبٰی لِلْغُرَبَائِ۔’’غرباء کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘
’’غُرباء‘‘ کون ہوں گے؟
ایسے دین ناآشنا اور بدعت پسند ماحول میں خالص، ٹھیٹھ اوربے آمیز اسلام پر عمل کرنے والوں کے لیے یہ کلماتِ نبوی اور فرامینِ رسول آج بھی حوصلہ افزائی کا باعث ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ’’غرباء‘‘ کی بابت مزید فرمایا:
’اَلَّذِینَ یُصْلِحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ‘
’’یہ غرباء جن کے لیے خوش خبری ہے وہ ہیں جو اس وقت اصلاح کریں گے جب لوگوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔‘‘[3]
[1] قٓ 2:50۔
[2] التغابن 6:64۔
[3] السنن الواردۃ في الفتن لأبي عمرو الداني، حدیث: 288، اس کی سند صحیح ہے۔دیکھیے: السلسلۃ الصحیحۃ، حدیث: 1273۔