کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 367
انگریز نے یہ رسم کس طرح شروع کی؟ اس کے بنیادی کردار کا اعترافِ جرم ملاحظہ فرمائیں: کراچی کے اخبار روزنامہ ’’نئی روشنی‘‘ کے مالک و مدیر جی اے چوہدری کے والد احمد بخش چوہدری کہتے ہیں: ’’مجھے اعتراف ہے کہ ایک دور تھا جب میں کسی مجبوری کے تحت حکومت برطانیا کا آلۂ کار تھا، میں برصغیر میں انگریزوں کے مفادات کے لیے مختلف کام انجام دیتا تھا، جس کے عوض مجھے معاشی سہولتوں کے علاوہ دیگر مراعات بھی حاصل تھیں، جیسے ہی پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی مجھے محکمہ داخلہ کے انگریز سیکریٹری نے عید کارڈ دکھائے جو بطورِ خاص انگلینڈ سے چھپ کر آئے تھے، ان پر خانہ کعبہ، مسجد نبوی، کلمہ طیبہ اور براق وغیرہ کی خوب صورت رنگین تصویریں تھیں، مجھے کہا گیا کہ یہ تمام عید کارڈ ایک دھیلے میں فروخت کرنا ہوں گے، بعد ازاں حکومت برطانیا مجھے ہر فروخت شدہ کارڈ کے عوض ایک ٹکا (دو پیسے) دے گی، بشرطیکہ میں 5 ہزار عید کارڈ فروخت کروں۔ مجھے سختی سے تنبیہ کی گئی کہ میں کسی کو بھی کوئی عید کارڈ بلاقیمت نہ دوں، ورنہ میرے حق میں اچھا نہ ہوگا، حکومت کا خصوصی کارندہ ہونے کی بنا پر مجھے پورے برصغیر میں ٹرین پر مفت سفر کی سہولت تھی، میں نے مزید تین افراد کے لیے بھی مفت سفر کی سہولت حاصل کرلی، اب مجھے کارڈ فروخت کرنے پر ایک دھیلہ ملنا تھا، سفر مفت تھا، یعنی ’’چپڑی اور وہ بھی دو دو۔‘‘ رمضان المبارک کے دوران، میں اور میرے یہ تینوں ساتھی دہلی سے کلکتہ تک سفر کے لیے نکل گئے اور ہر بڑے اسٹیشن پر اتر کر کتابوں اور اسٹیشنری کی دکانوں پر جاکر عید کارڈ فروخت کیے اور ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں پانچ ہزار سے کچھ زاید عید کارڈ فروخت کردیے، جس کا گوشوارہ محکمہ داخلہ کو دے کر واجبات وصول کرلیے گئے۔