کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 366
مشہور ہے) مذکورہ عبارت اس کے صفحہ 356 (طبع بیروت 1971ء) میں ہے اور دوسری کتاب المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع ہے (جو موضوعاتِ صغریٰ کے نام سے مشہور ہے) اس کے صفحہ 191 (طبع بیروت 1978ء) پر حدیث قضائے عمری کو باطل اور موضوع بتلایا گیا ہے، اسی طرح امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی جس عبارت کا حوالہ مولانا لکھنوی کی عبارت میں آیا ہے وہ قاضی شوکانی کی کتاب ’’الفوائد المجموعۃ في الأحادیث الموضوعۃ‘‘ (طبع مصر 1960ء) کے صفحہ 54 پر موجود ہے۔ بہر حال خود حنفی علمائے کرام کی صراحت کے مطابق حدیث قضائے عمری بالکل بے اصل اور من گھڑت ہے۔ اس پر عمل بدعت کے دائرے میں آئے گا جو حسبِ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ فِیہِ فَہُوَ رَدٌّ[1]مردود اور موجب گناہ ہے۔ عید کارڈ ایک تاریخی وضاحت عید کے موقع پر ’’عید کارڈ‘‘ ایک دوسرے کو بھیجنے کا بھی بڑا رواج ہے۔ یہ رسم بھی اصلاح طلب ہے، اس میں متعدد قباحتیں پائی جاتی ہیں۔ 1 یہ سراسر فضول خرچی ہے جو قرآن کریم کی رُو سے شیطان کے بھائی بندوں کا کام ہے۔ 2 اس میں غیروں کی مشابہت ہے۔ عید کارڈ انگریزوں کے کرسمس کارڈ کی نقل ہے۔ 3 اس کو مسلمانوں میں پھیلانے میں بنیادی کردار بھی انگریزوں ہی کا ہے۔ اس کے لیے ذیل کا ایک تاریخی حوالہ پیش خدمت ہے۔
[1] صحیح البخاري، الصلح، باب إذا اصطلحوا علٰی صلح…، حدیث: 2697 و صحیح مسلم، حدیث: 1718۔