کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 365
جن فقہاء (صاحبِ نہایہ اور دیگر شارحینِ ہدایہ) نے یہ روایت نقل کی ہے، ان کا کوئی اعتبار نہیں، اس لیے کہ ایک تو وہ خود محدث نہیں، دوسرا انھوں نے کسی امام و محدث کا حوالہ نہیں دیا جس نے اپنی کسی کتاب میں اس حدیث کی تخریج کی ہو۔ ملّا علی قاری حنفی، مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی اس حدیث کو من گھڑت قرار دیا ہے۔‘‘[1] علاوہ ازیں مولانا عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمعۃ الوداع کی بدعات کے ردّ میں ایک خاص رسالہ ’’ردع الإخوان عن محدثات آخر جمعۃ رمضان‘‘ لکھا ہے جو مجموعہ الرسائل الخمس میں شامل ہے، اس میں بڑی تفصیل سے عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں نوافل قضائے عمری کا باطل ہونا ثابت کیا ہے، اس رسالے میں بحث کے آخر میں لکھتے ہیں: ’وَخُلَاصَۃُ الْمَرَامِ فِي ہٰذَا الْمَقَامِ أَنَّ الرِّوَایَاتِ فِي قَضَائِ الْعُمُرِيِّ مَکْذُوبَۃٌ وَ مَوْضُوعَۃٌ وَالْاِہْتِمَامُ بِہٖ مَعَ اعْتِقَادِ تَکْفِیرِ مَامَضٰی بِدْعَۃٌ بَاطِلَۃٌ‘ ’’خلاصۂ بحث یہ ہے کہ قضائے عمری سے متعلق روایات جھوٹی من گھڑت ہیں اور پچھلے گناہوں کے کفارے کی نیت سے اس کا اہتمام کرنا ایک بدعتِ باطلہ ہے۔‘‘[2] مولانا لکھنوی مرحوم نے ملّاعلی قاری حنفی کی جو عبارت نقل کی ہے وہ ان کی دونوں کتابوں (جن میں موضوع احادیث کو جمع کیا گیا ہے) میں موجود ہے۔ پہلی کتاب الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ ہے (جو موضوعات کبیر کے نام سے
[1] الآثار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ اور مجموعۃ إمام الکلام، ص: 315 طبع لکھنؤ ۔ [2] مجموعۃ الرسائل الخمس، ص: 61،طبع لکھنؤ 1337ھ۔