کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 360
دعائے قنوتِ وتر کے ساتھ قنوتِ نازلہ؟ رمضان المبارک میں ایک اور رواج عام ہوتا جارہا ہے اور وہ یہ کہ بڑی مساجد میں دعائے قنوتِ وتر کے ساتھ دعائے قنوتِ نازلہ بھی روزانہ پڑھی جاتی ہے۔ حرمین شریفین (مسجد نبوی اور مسجدِ حرام) میں بھی بالعموم ایسا ہوتا ہے۔ غالباً اس کی دیکھا دیکھی یہاں بھی بعض مساجد میں اس کا اہتمام ہونے لگا ہے۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ رواج بھی سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہے۔ محض حَرَمَیْن میں اس کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، اس کے لیے شرعی دلیل کی ضرورت ہے۔ احادیث میں فرض نمازوں میں تو دعائے قنوتِ نازلہ کا ثبوت موجود ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر مسلسل ایک مہینے پانچوں نمازوں میں دعائے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، اس لیے فرض نمازوں میں تو اس کا جواز مُسلّمہ ہے لیکن وتروں میں اس کا جواز محل نظر ہے۔ بنابریں ہمارے خیال میں اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے نہ کہ حوصلہ افزائی۔ بعض لوگ اس کے لیے صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جماعت تراویح کا اہتمام شروع ہوا تو (آخری) نصف رمضان میں وہ قنوت نازلہ پڑھے تھے۔ (حدیث: 1100) یہ البتہ عہد صحابہ کی ایک نظیر ہے جس پر عمل کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے لیے مناسب طریقہ یہ لگتا ہے کہ اس میں قنوت نازلہ سے تجاوز نہ کیا جائے، یعنی اس کو کافروں کے لیے بددعا، مسلمانوں کی مغفرت اور ان کی فتح و نصرت کی دعا ہی تک محدود رکھا جائے، اس میں دیگر تمام دعاؤں کو شامل کر کے زیادہ سے زیادہ لمبا نہ کیا جائے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ اگر اس کی ضرورت سمجھی جائے تو عشاء یا فجر کے فرضوں میں اس کا اہتمام کیا جائے جو حدیث کے مطابق ہو گا اور زیادہ صحیح ہو گا۔