کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 36
جاتا ہے۔ گویا وہی صورت حال رونما ہو گئی ہے جو اولین اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کی ابتدائے اسلام میں تھی، انھیں معاشرے میں اجنبی اور بیگانہ سمجھا جاتا تھا
اور تحقیر آمیز نظروں سے انھیں دیکھا جاتا تھا۔ گویا غربتِ اسلام و اہل اسلام کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی تھی، وہ ہمارے اس دور پر بھی صادق آتی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا:
’بَدَأَ الإِْسْلَامُ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ غَرِیبًا فَطُوبٰی لِلْغُرَبَائِ‘
’’اسلام اپنے آغاز میں غریب (نووارد اجنبی کی طرح) تھا اور ایک وقت آئے گا کہ وہ پھر غریب (اجنبی) ہو جائے گا جس طرح آغاز میں تھا، پس ایسے غریبوں کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘[1]
غریب، عربی زبان میں اس نووارد مسافر کو کہا جاتا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا، اسلام اور اہل اسلام کی بھی ابتدائے اسلام میں یہی حالت تھی، اسلامی تعلیمات بالخصوص دعوتِ توحید لوگوں کے لیے نہایت تعجب انگیز تھی۔ اُس دَور کے مشرکوں نے کہا:
(أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿٥﴾)
’’کیا اس نے سارے معبودوں کو ایک ہی معبود کردیا ہے، یہ تو یقینا ایک بڑی عجیب چیز ہے۔‘‘[2]
انسانوں ہی میں سے ایک شخص کا رسول بن جانا بھی ان کے لیے تعجب خیز امر تھا۔
(بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ﴿٢﴾)
’’بلکہ انھوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا
[1] صحیح مسلم، الإیمان، باب بیان أن الإسلام بدأ غریباً …، حدیث: 145۔
[2] صٓ 5:38۔