کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 359
ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ سورۂ بقرہ کے اختتام پر خوشی اور شکرانے کے طورپر ایک اونٹنی ذبح کرکے تقسیم کی تھی۔ لیکن اس موقع پر جو شور شرابہ اور غل غپاڑہ بعض مسجدوں میں دیکھنے میں آتا ہے، وہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔ شیرینی کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ مذکورہ خرابی پیدا نہ ہو۔ اسی طرح کسی مسجد میں شیرینی وغیرہ تقسیم نہ ہو تو اس پر ناک بھوں نہ چڑھایا جائے کیونکہ شیرینی کی تقسیم فرض و واجب نہیں حتی کہ سنت و مستحب بھی نہیں بلکہ صرف جواز ہے، اس لیے اسے فرض و واجب کادرجہ دے دینا غیرمستحسن امر ہے۔ اسی طرح ختم قرآن پر مسجدوں میں چراغاں اورآرائشی جھنڈیوں وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیاجاتا ہے، یہ بھی شرعاً ناپسندیدہ امر ہے، اس لیے کہ ضرورت سے زیادہ مسجد میں روشنی کا انتظام کرنے میں غیروں سے مشابہت کا شائبہ ہے۔ ختمِ قرآن پر خصوصی طورپر دعاؤں کا اہتمام بھی غور طلب معاملہ ہے۔ اس طرح کی اجتماعی دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ثابت نہیں۔ علاوہ ازیں دعا میں اخفا (پوشیدگی) مستحسن ہے۔ (ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً) ’’پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے۔‘‘[1] مروجہ اجتماعی دعا میں یہ اخفا (پوشیدگی) نہیں بلکہ اِجْہَار (بلند آوازی) ہے۔ حَرَمَیْن شریفَیْن (مسجد نبوی اور خانہ کعبہ) میں بھی ختمِ قرآن پر جس طرح لمبی لمبی اور مُسَجَّع قافیوں میں دعائیں کی جاتی ہیں، خود بعض سعودی علماء بھی اس پر نکیر کرتے ہیں، اس لیے ختمِ قرآن پر لمبی لمبی دعاؤں کا اہتمام بھی نظر ثانی کا محتاج ہے۔
[1] الأعراف 55:7۔