کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 355
کے دوران میں ہونے والی کمی کوتاہی یا لغزش کے ازالے اورناداروں اور حاجت مندوں کو سامان خورو نوش فراہم کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ’فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِینِ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر روزے دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے فرض قرار دیا ہے۔‘‘[1] صدقۂ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، چاہے وہ بڑا ہے یا چھوٹا، مرد ہے یا عورت، آزاد ہے یا غلام۔ اس کی مقدار ایک صاع (تقریباً سوا دو کلو) ہے اور اس کی ادائیگی نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہونی چاہیے۔ امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِّنْ تَمْرٍ أَوْصَاعًا مِّنْ شَعِیرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّکَرِ وَالأُْنْثٰی، وَالصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَمَرَ بِھَا أَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض قرار دیا ہے جو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہے یہ مسلمانوں میں سے غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے سب پر فرض ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف نکلنے
[1] سنن ابن ماجہ، الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، حدیث: 1827۔