کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 35
اہل ایمان کا شیوہ تو طاعت و بندگی اور سمع و اطاعت ہوتا ہے اور ایسے مومن ہی کامیاب و بامراد ہوتے ہیں۔ فرمان ربانی ہے:
(إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللّٰهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥١﴾ وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٥٢﴾)
’’مومنوں کا تو شیوہ ہی یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘[1]
ابتدائے اسلام کی طرح آج بھی اسلام غریب (اجنبی) ہے
یہ حقیقت بڑی افسوس ناک ہے کہ آج مدعیانِ اسلام کی اکثریت اتباعِ رسول کی بجائے ابتداع (بدعت سازی) کے راستے پر گامزن ہے، آئے دن کوئی نہ کوئی بدعت ایجاد کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں بدعات کا اہتمام نہایت ذوق و شوق کے ساتھ اور بڑی پابندی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور دین کے جو اصل احکام و فرائض ہیں، ان سے یکسر تغافل و اعراض برتا جاتا ہے۔ حتی کہ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ مروجہ بدعات ہی کو اصل دین سمجھ لیا گیا ہے اور جو لوگ اتباعِ رسول کے جذبے سے سرشاری کی وجہ سے ان بدعات سے اجتناب کرتے ہیں، وہ معاشرے میں نکوبن کر رہ گئے ہیں، ان کو ہدفِ ملامت بھی بنایا جاتا ہے اور ان کو (نعوذ باللّٰہ) گستاخ اور بے دین بھی باور کرایا
[1] النور 52,51:24۔