کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 330
آتش بازی کا ذکر کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہر وہ شخص دے سکتا ہے جو خرافات اور من گھڑت روایات پر اعتماد کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف ستھری شریعت پر ایمان رکھتا ہو۔ اس حدیث کا اگر بنظر انصاف مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں کسی محفل جمانے، عبادت کرنے، چراغاں اور آتش بازی وغیرہ کا ذکرنہیں، بلکہ جس چیز کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عام مغفرت کا جس کا مستحق ہر وہ شخص ہے جو شرک اور کینہ پروری سے محفوظ ہے، لہٰذا اس رات کو عام بخشش کا مستحق بننے کے لیے ہر انسان کو چاہیے کہ اپنا عقیدہ شرک سے پاک کرے، اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے متعلق اپنا دل صاف رکھے اور کسی سے حسد، بغض اور کینہ نہ رکھے، یہ چیزیں انسان کی نجات کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کی جو فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی کہ مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ ہر مسلمان کی بخشش ہوتی ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچایا جاتا لیکن آج کا جاہل مسلمان الٹا اپنے آپ کو اس رات میں ان دونوں گناہوں میں ملوث کرتا ہے ایک طرف محافل کا انعقاد کر کے ان میں جھوٹی اور من گھڑت احادیث بیان کرنے کے علاوہ نعت خوان اور مقررین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کرتے ہیں اور آپ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں، یعنی دوسرے لفظوں میں کھلم کھلا شرک کرتے ہیں اور اللہ سے مغفرت کی بھی امید رکھتے ہیں اور دوسری طرف آتش بازی کے ذریعے سے اپنے ہی بھائیوں کو پریشان کر کے انسان دشمنی کا بھی ثبوت دیا جاتا ہے جس سے اس حدیث کی رو سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیسی ستم ظریفی ہے کہ بخشش الٰہی سے محروم ہوجانے والے کام بھی کیے جائیں اور جہنم سے آزادی کے پروانے کی بھی امید رکھی جائے۔