کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 327
’یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآْخِرُ، فَیَقُولُ: مَنْ یَّدْعُونِي فَأَسْتَجِیبَ لَہٗ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِي فَأُعْطِیَہٗ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَلَہٗ‘ وَفِي رِوَایَۃٍِ لِّمُسْلِمٍ: ’فَلَا یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِيئَ الْفَجْرُ‘ ’’ہمارا بابرکت اور بلند و بالا رب ہر رات کا جب آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، پھر کہتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کر ے تو میں اسے معاف کر دوں؟‘‘ مسلم کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ’’پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہے۔‘‘[1] اس صحیح حدیث کے مطابق یہ فضیلت ہر رات نصیب ہو سکتی ہے، لہٰذا اسے شعبان کی پندرھویں رات کے ساتھ خاص کرنا یقینا غلط ہے۔ (4) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کی پندرھویں رات کو دیکھا آپ کھڑے ہوئے اور چودہ رکعات نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے سورئہ فاتحہ، سورئہ اخلاص سورئہ فلق اور سورۂ ناس چودہ چودہ مرتبہ پڑھیں اور آیت الکرسی ایک مرتبہ پڑھی، جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ سے مذکورہ نماز کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ’مَنْ صَنَعَ مِثْلَ الَّذِی رَأَیْتَ کَانَ لَہٗ کَعِشْرِینَ حَجَّۃً مَّبْرُورَۃً
[1] صحیح البخاري، التھجد، باب الدعاء و الصلاۃ مِن آخر اللیل، حدیث: 1145، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الترغیب في الدعاء والذکر في آخر اللیل…، حدیث: 758۔