کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 326
یاد رہے کہ قصۂ عائشہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع میں جانے اور اہلِ بقیع کے لیے دعا کرنے کے متعلق ہے وہ صحیح ہے اور صحیح مسلم وغیرہ میں تفصیلاً موجود ہے لیکن اس میں شعبان کی پندرھویں رات کا کوئی ذکر نہیں، مکمل واقعہ کے لیے دیکھیے:صحیح مسلم، الجنائز، باب مایقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا، حدیث: 974۔ (3) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَیْلَتَھَا وَصُومُوا یَوْمَھَا، فَإِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیھَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا، فَیَقُولُ: أَلَا مُسْتَغْفِرٌ فَأَغْفِرَ لَہٗ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہٗ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہٗ؟ أَلَا سَائِلٌ فَأُعْطِیَہٗ؟ أَلَاکَذَا أَلَا کَذَا؟ حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ‘ ’’جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس میں قیام کیا کرو اور اس کے دن کا روزہ رکھا کرو کیونکہ اس رات کی شام سے ہی اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آکر فرماتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو رزق دوں؟ کیا کوئی بیمار ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے دوں؟ کیا کوئی … کیا کوئی … یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘[1] یہ حدیث بھی موضوع اور من گھڑت ہے۔ اس کے بجائے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے:
[1] سنن ابن ماجہ، الصلوات، باب ماجاء في لیلۃ النصف من شعبان، حدیث: 1388، وضعیف الجامع الصغیر للألباني، حدیث: 652، واللفظ لہ۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے، دیکھیے: السلسلۃ الضعیفۃ: 154/5، حدیث: 2132۔