کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 32
٭ اللہ اور اس کا رسول جب کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو اس کے مقابلے میں اپنی رائے پر اصرار اور اپنا حق اختیار استعمال کرنے کی روش، یہ کسی مومن مرد یا عورت کا کام نہیں۔ ٭ اور جو ایسا کرے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان اور کھلا گمراہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور گمراہی کا راستہ اختیار کرنے کی جو سزا ہے، ہر مسلمان اس سے آگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ اس کی سزا دنیا میں بھی مل سکتی ہے اور آخرت میں عذاب الیم کی صورت میں تو یقینی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾) ’’پس جو لوگ اس (اللہ کے رسول) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آزمائش آجائے یا درد ناک عذاب انھیں آلے۔‘‘[1] اسلام کی کاملیت پر ایک صحابی کا فخریہ اظہار بہر حال بات یہ ہو رہی تھی کہ اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے۔ اتنا مکمل ہے کہ بعض مشرکینِ مکہ نے اعتراض اور طعن کے طور پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا: ’عَلَّمَکُمْ نَبِیُّکُمْ کُلَّ شَيْئٍ حَتَّی الْخِرَائَ ۃَ‘ ’’تمھارا نبی تمھیں ہر چیز سکھاتا ہے حتی کہ یہ بھی بتلاتا ہے کہ تم قضائے حاجت کس طرح کرو۔‘‘
[1] النور 63:24۔