کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 31
کی طرف لوٹا دو، اگر تم (واقعی) اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘[1]
اللہ اور رسول کی طرف لوٹانے کا مطلب، قرآن اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرنا اور ان کی روشنی میں اختلاف و نزاع کا فیصلہ کرنا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلے کرنے سے انقباض ہو تو قرآن کہتا ہے کہ ایسے دعوے دارانِ ایمان کا ایمان ہی مشکوک ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ، چنانچہ فرمایا:
(فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾)
’’آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک یہ اپنے آپس کے اختلاف میں آپ کو حکم (ثالث) نہیں مانتے، نیز آپ کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پوری خوش دلی سے ان کو تسلیم کر لیں۔‘‘[2]
نیز فرمایا:
(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦﴾)
’’کسی مومن مرد اور مومن عورت کے یہ لائق نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ آجانے کے بعد وہ اپنے معاملے میں اپنا حق اختیار استعمال کریں اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اختیار کی، وہ یقینا کھلی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘[3]
اس آیت میں واضح طور پر دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں:
[1] النسآء 59:4۔
[2] النسآء 65:4۔
[3] الأحزاب 36:33۔