کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 30
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک خط کھینچ کر اسے اللہ کا راستہ بتلایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا، قرآن کریم کا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ایک ہی ہے، ایک سے زیادہ نہیں، اس لیے پیروی صرف اسی ایک راستے کی کرنی ہے، کسی اور کی نہیں۔ یہی امت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں تو بٹ سکتی ہے، جیسے کہ بٹی ہوئی ہے، مگر مجتمع نہیں ہو سکتی۔
علاوہ ازیں یہ راستہ جس طرح ایک ہے، اسی طرح واضح بھی ہے، اس میں ابہام ہے نہ اس کا سمجھنا مشکل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ، لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا، لَا یَزِیغُ عَنْھَا بَعْدِي إِلَّاھَالِکٌ‘
’’میں تمھیں ایک روشن دین پر چھوڑ کر جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ میرے بعد اس سے انحراف وہی شخص کرے گا جس کے مقدر میں ہلاکت ہو گی۔‘‘[1]
اس لیے جس طرح یہ ایک راستہ ہی ہدایت اور نجات کا ہے، اسی طرح اختلاف و انشقاق سے بچنے کا واحد طریقہ بھی اسی راستے کا اتباع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باہمی اختلاف کے خاتمے کے لیے ہمیں یہ اصول دیا گیا ہے:
(فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ)
’’اگر کسی چیز کی بابت تمھارا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو تم اس کو اللہ اور رسول
[1] سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، حدیث: 43، والمستدرک للحاکم: 98-96/1، والسلسلۃ الصحیحۃ، للألباني، حدیث: 937۔