کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 299
بعض راتوں کو خاص کرنا یا 18 ذوالحجہ یا رجب کا پہلا جمعہ یا آٹھ شوال کو عیدالأبرار منانا وغیرہ۔ یہ سب کچھ بدعات ہیں جو اسلاف کے ہاں مشروع نہیں تھیں۔[1] شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمۃ اللہ علیہ نے شب اسراء و معراج کی محافل و بدعات کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ محافل و محدثات قرآن و حدیث کی رو سے تو بدعات ہیں ہی لیکن مصالح مرسلہ یا استحسان یا قیاس اور اجتہاد کے ذریعے سے بھی یہ مشروع قرار نہیں پا سکتیں کیونکہ عقائد و عبادات کا تعلق نقل سے ہے اور یہ نقلی طور پر ثابت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ اور تابعین نے انھیں جائز قرار دیا ہو۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: یہ رسوم و رواج عقلی طور پر بھی مشروع قرار نہیں پاسکتے۔ کیونکہ اگر یہ مشروع ہوتے تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کرتے، پھر ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا ہوتے، پھر صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ا ئمۂ دین اسے عملی زینہ بناتے لیکن ان میں سے کسی کے ہاں بھی شب اسراء و معراج کی عبادات، محافل اور بدعات کا ذکر تک نہیں ملتا، لہٰذا جو چیز ان کی کامیابی کے لیے کافی تھی وہی ہماری کامیابی کے لیے بھی کافی ہے۔[2] مذکورہ ائمہ و فقہاء کے اقوال اور قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں ’’شب اسراء و معراج‘‘ میں مروجہ عبادات، محافل اور خود ساختہ فضائل و اعمال سب بدعات ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے واقعۂ معراج کی جو تفصیل احادیث صحیحہ میں ملتی ہے صرف وہی بیان کرنی چاہیے۔ یہ اعجازی واقعہ بجائے خود بڑی اہمیت کا حامل اور نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص شرف و امتیاز کو بیان کرنے والا ہے۔ ہمیں از خود اس میں نئے نئے اضافے کرکے اس کو چیستاں بنانے کی
[1] مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ: 298/2۔ [2] فتاوٰی ورسائل الشیخ محمد بن إبراہیم: 100-97/3۔