کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 298
ہاں بھی شب معراج کو کسی دوسری رات کے مقابلے میں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے چہ جائیکہ لیلۃ القدر کے مقابلے میں۔ اور نہ صحابہ اور تابعین ہی کے ہاں شب معراج کے ساتھ کسی عمل کی خصوصی فضیلت کا ذکر ملتا ہے، اسی لیے یہ رات متعین نہیں کہ یہ کون سی رات ہے۔ اگرچہ اسراء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم فضائل میں سے ہے، لیکن اس کے باوجودکسی شرعی عبادت کے ساتھ اس کے وقت یا جگہ کو خاص کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ غار حراء جس میں نزول وحی کی ابتدا ہوئی اور جہاں قبل از نبوت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم صراط مستقیم کے لیے غورو فکر کیا کرتے تھے، اس جگہ کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بعد از نبوت مکی دور میں اور نہ اس کے بعد کسی شرعی عبادت کے لیے خاص کیا اور نہ نزول وحی ہی کے دن میں کسی خاص عبادت کا اہتمام کیا۔ درحقیقت جو اس طرح مقامات و اوقات کو عبادات کے ساتھ خاص کرتا ہے وہ عیسائیوں کی پیروی اور مشابہت کرتا ہے کیونکہ انھوں نے ہی عیسیٰ علیہ السلام کے میلاد وغیرہ منانے کا اہتمام کیا، جبکہ ہمارے اسلاف کا تو یہ حال تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض لوگوں کو ایک جگہ نماز پڑھنے کے لیے ہجوم لگائے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی تو آپ نے فرمایا: کیا تم انبیاء کے آثار کو مسجدیں بنانا چاہتے ہو؟ اسی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے، جسے اس جگہ نماز کا وقت ملے وہ پڑھ لے ورنہ یہاں نماز پڑھے بغیر گزر جائے (اور جہاں نماز کا وقت ہو پڑھ لے)۔[1] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: عبادت کے مقررہ شرعی اوقات کے علاوہ کوئی وقت مقرر کرنا، جیسے ربیع الاول کی بعض راتوں میں عید میلاد منانا اور رجب کی
[1] المصنف لابن أبي شیبۃ: 377,376/2، اس کی سند صحیح ہے۔