کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 290
الْکِرَامِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ فَہُوَ بِالإِْجْمَاعِ بَاطِلٌ وَحَرَامٌ[1] علمائے فرنگی محل (لکھنؤ) کا متفقہ فتویٰ چنانچہ علمائے اہل حدیث و دیوبند کے علمائے فرنگی محل(لکھنؤ) نے بھی ان کے بے اصل ہونے کا متفقہ فتویٰ دیا ہے جو آج سے پون صدی (75سال) قبل شائع ہوا تھا۔ ان سے سوال کیا گیا: سوال:’’اس جوار میں طریقۂ اہل تشیع کے موافق کونڈوں کا بڑا رواج ہوگیا ہے، یعنی 22رجب کو نمازِ فجر کے بعد پوریاں کونڈوں میں رکھ کر فاتحہ ہوتا ہے اور طریقۂ فاتحہ کے ضمن میں ایک تصنیف ہے، وہ پڑھی جاتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ شیعوں کے امام جناب جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ’’22رجب کو کونڈے کرو اورمیرے توسل سے مراد طلب کرو اورجو مراد پوری نہ ہو تو قیامت میں تمھارا ہاتھ میرا دامن ہوگا۔‘‘ ایسی فاتحہ دلانا اس میں شریک ہونا جائز ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ شرع شریف کے موافق اس کی اصلیت یا تشریح سے آگاہ کرکے ماجور ہوں گے۔(ملخصاً) جواب1: ایصالِ ثواب بہتر ہے لیکن کونڈوں کی تعیین اور دیگر لوازم مذکورہ سوال کی تخصیص بالکل بے اصل ہے۔ اس کو ایصالِ ثواب میں ضروری سمجھنا سراسر غلطی ہے۔ روایت مذکورہ کسی معتبر کتاب میں نظر سے نہیں گزری۔ اس طریقۂ خاص کو باتباعِ اغیار اختیار کرنا اہل اسلام کے شایانِ شان نہیں بلکہ مُزخرفاتِ اغیار کو ترقی دینا ہے، لہٰذا اس بدعت کو مٹانے کی کوشش کرنا اہل اسلام کا فرض ہے جس میں امکانی دریغ سے گنہگار ہوں گے۔[2]
[1] الدرالمختار، آخر کتاب الصوم، صفحہ: 134، طبع میر ٹھ ۔ [2] حررہ الراجي عند ربہ الوحید أبو الحامد محمد عبدالوحید غفراللّٰہ ذنوبہ۔