کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 276
طرف منسوب گیارھویں کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اسی طرح آپ کی وفات کے بعد بھی کئی صدیوں تک اس کا نام ونشان نہیں ملتا۔ علاوہ ازیں پاک و ہند کے علاوہ کسی بھی علاقے میں گیارھویں کا کوئی تصور نہیں ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ پاک و ہند میں گیارھویں کو جو حیثیت و اہمیت حاصل ہے، آخر اس کی بنیاد کیا ہے؟ کیا صدیوں بعد کی ایجاد بندہ قسم کی چیزیں دین کا حصہ بن سکتی ہیں؟ اجرو ثواب کا باعث ہوسکتی ہیں؟ وہ واجب یا مستحب ہوسکتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اعلان فرما دیا تھا: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي) ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔‘‘[1] اب تکمیلِ دین کے بعد گیارھویں کا وجوب یا استحباب کہاں سے آگیا؟ صحابہ و تابعین اور ائمۂ محدثین کے دور میں جس کا وجود نہیں تھا، اب اس کی دینی حیثیت کیا ہوسکتی ہے؟ بہرحال جو شخص بھی اس نکتے پر غورکرے گا اوراس کو فکر و نظر کاموضوع بنائے گا، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے حق و صواب کا راستہ واضح فرما دے گا۔ بقول علامہ اقبال: ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھائیں کسے، راہروِ منزل ہی نہیں اور
[1] المآئدۃ 3:5۔