کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 274
’’کسی حاکم اوراسی طرح کسی بڑے کی آمد پر (حسن خلق یا شرعی ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضامندی اوراس کی تعظیم کے طورپر) جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا، اس لیے کہ وہ { وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ} میں داخل ہے اگرچہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے۔‘‘[1] البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ) کا مدلول اوراس میں داخل نہیں سمجھتے اور اشتراک علت (تقرب لغیر اللّٰہ) کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں۔ گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ صرف استدلال واحتجاج کے طریقے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ دوسری صورت (وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ) (جو بتوں کے پاس یا تھانوں پر ذبح کیے جائیں) میں بھی داخل ہے، جسے سورۂ مائدہ میں محرمات میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آستانوں، درباروں اور تھانوں پر ذبح کیے گئے جانور حرام ہیں، اس لیے کہ وہاں ذبح کرنے کا یا وہاں لے جاکر تقسیم کرنے کا مقصد تقرب لغیر اللہ، اللہ کے سوا دوسروں کی رضا اور تقرب حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: ایک شخص نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ جگہ میں اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا وہاں زمانۂ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟‘‘ لوگوں نے بتلایا: نہیں، پھر آپ نے پوچھا: ’’وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی تھی؟‘‘ لوگوں نے اس کی بھی نفی کی تو آپ نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔‘‘[2]
[1] کتاب الذبائح، طبع قدیم1277ھ، ص: 277، وفتاویٰ شامي: 203/5، مطبع میمنیۃ، مصر۔ [2] سنن أبي داود، الأیمان والنذور، باب مایؤمر بہ من وفاء النذر، حدیث: 3313۔