کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 273
واللّٰہ أکبر، ہی کہہ کر جانور کو ذبح کرتے ہیں نہ کہ بزرگ کا نام لے کر، پھر وہ حرام کس طرح ہوگیا؟ بات دراصل جو سمجھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا جائے، اس کی مختلف صورتیں ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ذبح کیاجائے اور ذبح کرتے وقت نام بھی اسی بت یا بزرگ کا لیا جائے، بزعم خویش جس کو راضی کرنا مقصود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقرب ہی ہو لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جس طرح کہ قبرپرستوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وہ جانوروں کو بزرگوں کے لیے نامزد تو کرتے ہیں، مثلاً: یہ بکرافلاں پیر کا ہے، یہ گائے فلاں پیر کی ہے، یہ جانور گیارھویں کے لیے، یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اوران کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقینا حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا ہے اور یوں شرک کا راستہ کھول دیا گیا ہے، حالانکہ فقہاء نے اس دوسری صورت کو بھی حرام قراردیا ہے، اس لیے کہ وہ بھی (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ) میں داخل ہے، چنانچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے: ’’ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے، حرام ہے، اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے، اس لیے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان اگر غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔‘‘ اور فقہ حنفی کی مشہورکتاب در مختار میں ہے: